Posted on Leave a comment

گمراہ شخصیات کا مطالعہ : شیخ سرفراز فیضی

*گمراہ شخصیات کا مطالعہ*⁦✿⁠✿⁠✿⁠*✍🏻سرفراز فیضی*⁦✿⁠✿⁠✿⁠طالب علمی کے زمانے سے یہ مشاہدہ رہا ہے کہ جن طلبہ کو گمراہ شخصیات کے لٹریچر کا چسکا لگ جاتا ہے ان کا دل نہ درسی کتابوں میں لگتا ہے نہ متقدمین علماء کی کتابوں میں ان کی دلچسپی باقی رہ جاتی ہے، ایسے لوگ ادیبانہ تعبیروں سے لذت کشید کرکے ادب خوانی کی اپنی وقتی طلب کو تسکین تو دے لیتے ہیں لیکن فقہ وفہم کی گہرائی ان میں پیدا نہیں ہوپاتی، ایسے لوگ ایک مفکرانہ قسم کا مصنوعی رعب خود پر طاری کرکے لفظوں سے کھیلنا تو سیکھ جاتے ہیں لیکن سلف کی کتابوں سے کلام میں جو وزن پیدا ہوتا ہے یہ اس سے ہمیشہ محروم رہتے ہیں، ان کی باتوں میں سطحیت ہوتی ہے ، پھکڑ پن ہوتا ہے، ان کا مطالعہ ذوالجہات تو ہوتا ہے لیکن عمیق نہیں ہوتا، یہ لفظوں کے جادوگر اور معنیٰ کے فقیر ہوتے ہیں، ان پاس الفاظ کی بہتات ہوتی ہے اور معانی کا افلاس، ان کے کلام میں حسن تو ہوتا ہے پر تجزے میں گہرائی اور نظر میں وسعت نہیں ہوتی، ان کے مطالعے کا مقصد قرأت ادب کی اپنی وقتی شہوت کو تسکین دینا ہوتا ہے اس لیے ان کی لذت نفس ان کو مختلف وادیوں میں لے کر گھومتی ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ ہر فن میں سطحی سی باتیں تو کرلیتے ہیں لیکن کسی فن میں تخصص اور مہارت پیدا نہیں کرپاتے، ایسا مطالعہ وقتی شہوت کو تسکین تو پہنچا سکتا ہے رہنمائی نہیں کرسکتا ۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ان کے یہاں قبولیت ورد کا معیار بگڑ جاتا ہے، یہ دلیلوں کے وزن نہیں کلام کے حسن کی بنیاد پر باتوں کو قبول یا رد کرنے لگتے ہیں، ان کا بہکنا آسان ہوجاتا ہے اور یہ جب یہ بہکتے ہیں تو امت کے لیے بھی فتنہ بن جاتے ہیں، اسی لیے اللہ کے رسول نے فرمایا مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ خوف “منافق علیم اللسان” کا ہے۔ یعنی ایسا منافق جو ادیب بھی ہو۔