Posted on Leave a comment

جامعۃ الامام الالبانی اتر دیناج پور مغربی بنگال، ہند

_____*جامعۃ الامام الالبانی: مختصر تعارف*_____سرزمین ہند کے خطۂ مشرق و شمال میں واقع صوبہ مغربی بنگال سے ضلالت وگمراہی کی تاریکی مٹانے اور حق وصداقت کی قندیلیں روشن کرنے کے لئے قوم کا ہونہار، روشن خیال، متحرک وفعال اور عالی ہمت جاں نثار فضیلۃ الشیخ ابو اریب مطیع الرحمن شیث محمد المدنی حفظہ اللہ ورعاہ نے *جامعۃ الامام الالبانی* کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جو آج الحمد للہ تعلیم وتعلم، صحافت وخطابت ،تصنیف وتالیف ،ناداروں اور یتیموں کی کفالت اور رفاہی خدمات سے لے کر دعوت وتبلیغ اور اصلاح وسدھار کے ہر میدان میں اپنی ایک پہچان رکھتا ہے۔ جامعہ اللہ کے فضل وکرم سے آج ترقی کی ان بلندیوں پر ہے جہاں یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ *اصلھا ثابت وفرعھا فی السماء* ۔مہمانان گرامی قدر! آپ حضرات کی سماعت کے حوالے جامعہ کے مختلف شعبوں کا مختصر تعارف پیش کیاجاتا ہے۔ جامعہ کا نام: جامعۃ الامام الالبانی سن تاسیس: 15/جولائی 2016محل وقوع: بوڑھیان، پوسٹ: مگنابھیٹا، تھانہ: کرندیگھی، ضلع: اتردیناجپور، صوبہ: مغربی بنگال، ہندرئیس ومؤسس: ابو اریب مطیع الرحمن شیث محمد المدنی مقاصد : ۱- اللہ کے بندوں کو اللہ سے جوڑنا اور زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ سکھلانا۔ ۲- ملت کے نونہالوں کو فکری بے راہ روی اور الحاد واباحیت پسندی سے موڑ کرصحیح اسلامی تعلیمات سے آراستہ کرنا ۔۳- اچھی صلاحیت کے ساتھ ساتھ دولت صالحیت سے مالا مال کرکے نونہالان قوم وملت کو امت کی صحیح رہنمائی کرنے کے قابل بنانا ۔۴- دینی علوم کے ساتھ عصری علوم سے بھی طلبہ کو مزین کرنا تاکہ وہ ہر سطح پردعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دے سکیں۔*جامعہ کی انتظامیہ کمیٹی*: مؤسس و رئیس جامعہ فضیلۃ الشیخ مطیع الرحمن شیث محمد المدنی حفظہ اللہ کے زیر نگرانی قائم مندرجہ ذیل تین کمیٹیوں کے اشراف میں جامعہ اپنی دینی سرگرمیوں کو انجام دینے میں مصروف ہے۔ ۱۔ لجنۂ تنفیذی ،جس کے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ارکان ہیں. ۲۔ لجنۂ استشاری جس کے بشمول تنفیذی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارکان ہیں. ۳۔ لجنۂ علمی جس کے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ارکان ہیں. *جامعہ کے شعبہ بنین وبنات* کے تعلیمی مراحل:(1) عالمیت یہ مرحلہ دو سال کی تعلیم پر مشتمل ہے جس میں حفظ وتجوید، تفسیر وعلوم تفسیر ،حدیث وعلوم حدیث ، فقہ واصول فقہ ،عقیدہ وادب ، سیرت وتاریخ ،نحو وصرف ، اور بلاغت کے ساتھ انگریزی زبان کی ٹھوس تعلیم دی جاتی ہے۔ (2) ثانویہ یہ مرحلہ دو سال کی تعلیم پر مشتمل ہے جس میں حفظ وتجوید ،حدیث واصول حدیث ، تفسیر وعقیدہ ، فقہ واصول فقہ ، نحو وصرف ، سیرت وتاریخ اور ہندی کے ساتھ انگریزی مضمون کو لازمی سبجکٹ کی حیثیت سے پڑھایا جاتا ہے۔ (3) متوسطہ یہ مرحلہ تین سال کی تعلیم پر مشتمل ہے جس میں حفظ وتجوید ،قرآن ( ترجمہ وتفسیر) حدیث، عقیدہ وادب ،نحو صرف ،سیرت وتاریخ ،اردو زبان وادب اور ہندی وحساب کے ساتھ انگریزی زبان کی لازمی مضمون کی حیثیت سے تعلیم دی جاتی ہے۔ (4) شعبہ ابتدائیہ یہ شعبہ پانچ سال کے تعلیمی کورس پر مشتمل ہے ۔ اس مرحلہ میں دینیات کے ساتھ انگریزی ،ہندی ،حساب ،جغرافیہ اور معلومات عامہ کی ایسی ٹھوس تعلیم دی جاتی ہے کہ طالب علم کسی بھی سرکاری اسکول میں آٹھویں کلاس میں بآسانی داخل ہوجاتا ہے۔ واضح رہے کہ اس مرحلہ میں عصری مضامین کی کتابوں کو داخل نصاب کیا گیا ہے تاکہ طلبا کی استعداد مضبوط اور ان کی علمی بنیاد ٹھوس ہو۔ شعبہ جات: کلیہ شریعہ للبنین: اس شعبہ میں غریب، یتیم اور محتاج طلبہ کی ایک خاصی تعداد ہے۔ اور من جملہ طلبہ کی کل تعداد 350 ہے۔کلیہ شریعہ خدیجہ رضی اللہ عنہا للبنات: اس شعبہ میں قوم کی بیٹیوں کو اسلامی ماحول میں رہ کر دنیوی علوم و عصری علوم کے ساتھ کشیدہ کاری، کمپیوٹر اور سلائی وغیرہ کی بھی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ جن کی کل تعداد 650 ہے۔شعبۂ بنین وبنات کا نصاب تعلیم : جامعہ کا نصاب خالص کتاب وسنت اور ان دونوں کے معاون علوم کی تدریس وتعلیم پر مشتمل سعودی منہج وفکر سے ہم آہنگ ہے۔ واضح رہے کہ شعبہ ٔ بنین اور شعبہ بنات کے نصاب میں مکمل ہم آہنگی ہے۔ *شعبہ تحفیظ القرآن*: جامعہ میں ‘‘معہد زید بن ثابت لتحفیظ القرآن’’ کے نام سے شعبۂ حفظ کا قیام عمل میں آیا ہے تاکہ تجوید کے ساتھ قرآن کریم کی مشق اور مکمل حفظ کرایا جاسکے۔ *شعبہ خطابت*: اصلاح سماج کیلئے فن خطابت کی اہمیت کے پیش نظر طلبہ وطالبات کے مابین ہفتہ واری انجمن کا انعقاد کے ساتھ ثقافتی سرگرمی پیدا کرنے گاہے بگاہے مسابقتی پروگرام، دبیٹ، اور سمپوزیم بھی رکھی جاتی ہے۔ تاکہ فراغت کے بعد بحیثیت مصلح سماج خوب سے خوب خدمات انجام دے سکے۔*شعبۂ صحافت* جامعہ ہذا نے فن خطابت کے ساتھ فن صحافت میں ہنر آزمانے پر خاص توجہ دی ہے جس کے تحت ہر ماہ *صوت الالبانی* کے نام سے طلبہ کے لکھے ہوئے چھوٹے چھوٹے مضامین عربی، انگریزی، اردو اور بنگلہ زبان میں منظر عام پر آتے ہیں۔ اور سالانہ صحافتی مسابقہ بھی کرایا جاتا ہے۔ *شعبہ دعوت و تبلیغ*: اس پلیٹ فارم سے درس قرآن ، درس حدیث ،خطبۂ جمعہ اور گاہے بگاہے جلسوں میں شرکت کے ذریعہ جامعہ کے اساتذہ وطلبہ دعوت وتبلیغ کا فریضہ مختلف مقامات پر انجام دیتے ہیں۔*شعبۂ تصنیف و تالیف*: جامعہ کے زیر اشراف تصنیف وتالیف اور تحقیق وترجمہ کا مستقل شعبہ ہے جس کے تحت اب تک عربی ، اردو اور بنگلہ زبانوں میں کئی ساری کتابیں شائع ہوکر مقبول ہوچکی ہیں ۔ مزید اس ادارہ کے جانب سے ایک دینی ،علمی واصلاحی مجلہ ماہنامہ “مجلہ الناصر’’ کے نام سے اردو زبان میں شائع ہوتا ہے۔*مکتبہ ابن باز* : جامعہ کے پاس اپنی ایک بڑی لائبریری ہے ۔ کم عرصہ ہی میں کتابوں کا اچھا خاصہ ذخیرہ پایا جاتا ہے۔ بروقت کتابوں کی تعداد (۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ) ہے۔ ساتھ ہی ہند وبیرون ہند سے شائع ہونے والے مختلف زبانوں کا اخبارات ورسائل سے بھی لائبریری مالا مال ہے ۔*دار الایتام* : اس شعبہ کے ذریعہ غریب ومسکین اور یتیم بچے ، بچیوں کی تربیت وتعلیم ،خورد ونوش ،لباس ورہائش ،علاج ومعالجہ اور بجلی وپانی فیس کی فراہمی پر توجہ صرف کیا جاتا ہے۔*ایمبولینس* : جامعہ کے پاس ایک ذاتی ایمبولینس ہے جس سے طلبہ وطالبات کے ساتھ علاقہ کے عام ضرورت مند لوگ بھی مکمل فری مستفید ہوتے ہیں۔ *شعبہ زراعت* : جامعہ کے پاس قابل کاشت کچھ زمین ہیں، جن میں باغبانی اور زراعت کا کام کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں مچھلی پالن کے لئے کئی ایک تالاب ہیں جن سے موصول ہونے والی رقم جامعہ ہذا کے اخراجات میں صرف کیے جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ جامعہ امام البانی کو دن دونی رات چوگنی عطاء فرمائے آمین یاربنا

Posted on Leave a comment

ہمارا استحصال


یقینا علم کا حاصل کرنا سب سے بہترین کاموں میں سے ایک ہے ۔اس کے حصول کی خاطر ہم طلبہ اپنے ماں باپ ،بھائی بہن،رشتہ دار اور دوستوں و احباب کو چھوڑ کر مدرسے‌ کا رخ کرتے ہیں ۔مزید اعلی تعلیم کے لئے جامعات اور عصری علوم کے لئے کالجز اور یونیورسٹیز کا قصد کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
اس تعلیمی سفر کے دوران ہم طلبہ کا خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی کئی اعتبار سے استحصال کیا جاتا ہے،ان کی کمزوریوں کا غلط استعمال کیا جاتا ہے اور ان کی مجبوریوں سے ان کی عزت اچھالی جاتی ہے ۔۔۔۔۔
یقینا جہاں بعض طلبہ بہت ذہین و فطین ہوتے ہیں وہیں بعض کمزور بھی ہوتے ہیں۔لیکن ذہین اور کمزور دونوں قسم کے طلبہ کا استحصال کیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔یہاں یہ بات بھی واضح کرتا چلوں کہ ہمارا استحصال کرتا کون ہے ؟ ہماری مجبوریوں‌ کا غلط استعمال کرتا کون ہے ؟ تو جواب: ہمارے اساتذہ ہیں ۔میں نہیں کہتا کہ سارے اساتذہ اس میں شامل ہیں۔ بلکہ ہمارے اکثر‌ اساتذہ اچھے ہیں اور بہت اچھے ہیں ۔ان کا ڈانٹنا ،ان کا مارنا اور ان کا کسی معاملے میں غصہ ہونا یقیناً ہمارے لئے باعث رحمت ہوتی ہے کیوں کہ ان کے اندر اخلاص کا مادہ ہوتا ہے ۔اللہ انہیں جزائے خیر دے ،انہیں اپنے حفظ و امان میں رکھے اور ان کے جائز خواہشات کو پوری کرے آمین ۔۔۔ لیکن بعض اساتذہ کا ہمارا استحصال،ہمارا مزاق اور ہماری عزت کو اچھالنا محبوب مشغلہ ہے ۔۔۔ وہ اس طور پر کہ جو طلبہ‌خواہ وہ مدرسے کے ہوں یا کالجز کے جو ذہین ہیں ان کو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر کئی چیزوں میں استمعال کرتے ہیں۔۔۔جو کسی بھی طور پر جائز نہیں ہے۔۔اسی طرح جو کمزور ہوتے ہیں ان سے زیادہ سوال کرنا تاکہ کلاس میں ہنسی کا ماحول پیدا کیا جاسکے،اسے تمام طلبہ کے بیچ یہ احساس دلایا جا سکے کہ یہ علم تمہارے بس کا نہیں ہے تم کند ذہن ہو ،کوئی اور کام کرلو ،پورے کلاس والوں کو ایک تفریح کے سامان کے حیثیت سے کمزور طلبہ کو رکھ دیا جاتا ہے اور سب مزاق بناتے ہیں ۔۔۔اس طرح کمزور طلبہ کا استحصال کرتے ہیں اور رسوا کرتے ہیں ہمارے بعض اساتذہ۔۔۔
ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے اس بات سے بہت سے‌اساتذہ اور بہت سے طلبہ متفق نہیں ہوں گے لیکن حقیقت یہی ہے اور سچھائی یہی ہے کہ ان کے اندر اخلاص نہیں ہے ،اللہ کا خوف نہیں ہے،
یاد رکھیں آپ چاہے جو بھی ہوں ،کتنے ہی باصلاحیت اور بارعب ہوں ۔۔۔اگر آپ ظلم کریں گے‌ نا تو اللہ آپ کو نہیں چھوڑے گا ۔۔۔اس دنیا میں نہیں تو کل قیامت میں آپ پکڑے جائیں گے ۔۔۔اور یہ بھی یاد رہے کہ مظلوم کی بددعا سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے ۔۔۔اللہ ہم سب کو اچھی سمجھ عنایت فرمائے آمین ۔۔۔

محفوظ الرحمن محمد اسلم جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ

Posted on Leave a comment

News

اصل مسئلہ دل کا ہے ، ہمارے دل مردہ ہو چکے ہیں، ان میں زندگی کی لہر دوڑانا ناگزیر ہے، دل بے شمار بیماریوں کا شکار ہیں، ان کا علاج از بس ضروری ہے۔
دل کو جسم انسانی میں ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے جو کیفیت دل کی ہوتی ہے اعمال اسی کی ترجمانی کرتے ہیں۔ دل میں فساد و بربریت ہو تو اعمال سے یقیناً درندگی ٹپکے گی اور اس کے برعکس اگر دل میں امن و آشتی کے جذبات ہوں تو اعمال سے محبت و الفت کے زمزمے پھوٹیں گے۔ اسی لئے تو آنحضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«اَلَا فِي الْجَسَدِ مُضْغَةٌ اِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الْجَسَدُ كُلُّه وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّه اَلَا وَھِيَ الْقَلْبُ »
کہ جسم انسانی میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہوتا ہے تو جسم کے تمام اعضاء درست کام کرتے ہیں۔ جب اس میں خرابی پیدا ہوتی ہے تو تمام جسم میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔
خبردار! وہ گوشت کا ٹکڑا انسانی دل ہے۔
تعمیرِ انسانیت کے لئے سب سے پہلی اور بنیادی شرط یہ ہے کہ دل میں زندگی پیدا کی جائے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زندہ دلی سے مراد کیا ہے؟ کیا اس دل کو زندہ نہیں کہا جائے گا جو معمول کے مطابق حرکت کرتا ہو اور جو دوسرے اعضاء کو باقاعدگی سے خون پہنچاتا ہو؟ زندہ دلی اسی کا نام ہے تو پھر اس کائنات میں کس کا دل مردہ ہے؟
اس سوال کا جواب میں اپنی طرف سے نہیں بلکہ علامہ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کے افادات سے دوں گا۔ جس سے یہ چیز کھل کر سامنے آجائے گی کہ زندہ دلی سے مراد کیا ہے؟
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ،
﴿وَمَاۤ أَرۡسَلۡنَا مِن قَبۡلِكَ مِن رَّسُولࣲ وَلَا نَبِیٍّ إِلَّاۤ إِذَا تَمَنَّىٰۤ أَلۡقَى ٱلشَّیۡطَـٰنُ فِیۤ أُمۡنِیَّتِهِۦ فَیَنسَخُ ٱللَّهُ مَا یُلۡقِی ٱلشَّیۡطَـٰنُ ثُمَّ یُحۡكِمُ ٱللَّهُ ءَایَـٰتِهِۦۗ وَٱللَّهُ عَلِیمٌ حَكِیمࣱ ۝٥٢ لِّیَجۡعَلَ مَا یُلۡقِی ٱلشَّیۡطَـٰنُ فِتۡنَةࣰ لِّلَّذِینَ فِی قُلُوبِهِم مَّرَضࣱ وَٱلۡقَاسِیَةِ قُلُوبُهُمۡۗ وَإِنَّ ٱلظَّـٰلِمِینَ لَفِی شِقَاقِۭ بَعِیدࣲ ۝٥٣ وَلِیَعۡلَمَ ٱلَّذِینَ أُوتُوا۟ ٱلۡعِلۡمَ أَنَّهُ ٱلۡحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَیُؤۡمِنُوا۟ بِهِۦ فَتُخۡبِتَ لَهُۥ قُلُوبُهُمۡۗ وَإِنَّ ٱللَّهَ لَهَادِ ٱلَّذِینَ ءَامَنُوۤا۟ إِلَىٰ صِرَ ٰ⁠طࣲ مُّسۡتَقِیمࣲ ۝٥٤﴾ [الحج ٥٢-٥٤]
اس آیت کی تفسیر میں علامہ ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے
”دل تین قسم کے ہیں۔ قلبِ سلیم (زندہ دل)، قلبِ میت (مردہ دل)، قلبِ مریض (بیمار دل)”
قلبِ سلیم یعنی زندہ دل کی تعریف انہوں نے ان الفاظ میں کی ہے:
«اَلَّذِيْ سَلِمَ مِنْ كُلِّ شَھْوَةٍ تُخَالِفُ اَمْرَ اللهِ وَنَھْيَه »
یعنی زندہ دل وہ ہوتا ہے جو ہر اس خواہش سے پاک ہو جو اللہ تعالیٰ کے حکمِ امتناعی اور اثباتی کے مخالف ہو۔
مزید برآں لکھتے ہیں:
«فَسَلِمَ مِنْ عَبُوْدِيَّةِ مَا سِوَاهُ مُخْلِصٌ لِلهِ مَحَبَّتِه وَخَوْفِه وَرَجَائِه وَالتَّوَكُّلِ عَلَيْهِ وَالْاِنَابَةِ اِلَيْهِ وَاِيْثَارِ مَرْضَاتِه فِيْ كُلِّ حَالٍ وَالتَّبَاعُدِ مِنْ سَخَطِه اِنْ اَحَبَّ اَحَبَّ فِي اللهِ وَاِنْ اَبْغَضَ اَبْغَضَ فِي اللهِ وَاِنْ اَعْطٰي اَعْطٰي لِلهِ وَاِنْ مَّنَعَ مَّنَعَ لِلهِ »
(دیکھئے تفسیر ابن القیم ،تحت ہذہ الآیۃ )
یعنی زندہ دل وہ ہوتا ہے جو اللہ رب العزت کی بندگی کے سوا ہر کسی کی بندگی سے محفوظ ہو جس میں اللہ تعالیٰ سے محبت اور ڈر۔ اسی سے امید اور اسی پر بھروسہ پورے اخلاص کے ساتھ پایا جائے جو ہر حالت میں اسی کے حضور جھکے، اسی کی رضا کو ترجیح دے۔ جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے دور بھاگے۔ اگر کسی کو پسند کرے تو خدا کے لئے اور اگر ناپسند کرے تو بھی خدا کے لئے۔ اگر کسی کو دینے کا جذبہ پیدا ہو تو اپنے رب کو خوش کرنے کے لئے اور اگر کسی کو نہ دینے کا ارادہ ہو تو بھی اسی کی مرضی کے مطابق۔
علاوہ ازیں زندہ دل میں یہ اوصاف بھی پائے جاتے ہیں مثلاً حیا، پاکیزگی، صبر و تحمل، شجاعت، غیرت، خودی، نیکی سے محبت اور برائی سے نفرت۔
جس دل میں یہ خوبیاں پائی جائیں، اس میں ایک نور، ایک چمک پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسا دل در حقیقت تجلیاتِ الٰہی کا مرکز ہوتا ہے۔ ایسے دِل پر انوارِ الٰہیہ کی بارش ہوتی ہے۔ اس حالت میں یہ محض ایک گوشت کا لوتھڑا نہیں ہوتا بلکہ نورانیت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بن جاتا ہے۔ جس سے محبت و الفت، امن و آشتی، رحمت و رافت، صبر و تحمل اور ہمت و شجاعت کے بخارات اُٹھتے ہیں اور رفعت و سربلندی کے بادل بن کر ہر سو پھیل جاتے ہیں۔ جن سے علم و حکمت اور عقل و دانش کی ایسی بارش ہوتی ہے کہ مردہ دلوں کے لئے حیاتِ نو کا پیام لاتی ہے اور پیاسے دلوں کو سیراب کرتی ہے۔ چنانچہ زندگی کا صحیح معنوں میں لطف اس شخص کو حاصل ہوتا ہے جو اپنے سینے میں ایسا دل رکھتا ہے جو مذکورہ بالا خوبیوں سے متصف و مشرف ہو۔ لہٰذا ہم میں سے ہر ایک کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے دل کا جائزہ لے اور یہ دیکھے کہ ان میں سے کون کون سی چیزوں میں موجود ہے اور کون کون سی چیز سے دل محروم ہے۔ جو چیز موجود ہے اس کو مستقل بنایا جائے اور جس چیز سے محرومی ہے، اس کو پیدا کیا جائے ورنہ انسانیت کی تعمیر ممکن نہیں۔
آج مسلم قوم کا یہ سب سے بڑا المیہ ہے کہ اس معیار کا صاحبِ دل عنقا ہے۔ ہر سو جہالت و مردہ دلی کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جب تک یہ چیز ختم نہیں ہوتی اس قوم کو سرخروئی نصیب نہیں ہو سکتی۔ حافظ ابنِ قیمؒ نے تو مردہ دل انسانوں کو حقیقی مردوں کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ فرماتے ہیں:
«وَھٰذَا مِنْ اَحْسَنِ التَّشْبِيْهِ لِاَنَّ اَبْدَانَهُمْ قُبُوْرُ قُلُوْبِھِمْ فَقَدْ مَاتَتْ قُلُوْبُھُمْ وَقَبْرَتْ فِيْ اَبْدَانِھِمْ »
کہ یہ ایک بہترین تشبیہ ہے اس لئے کہ ان کے بدن ان کے دلوں کی قبریں ہیں۔ دل مر گئے ہیں اور انہیں ان کے ابدان میں دفن کر دیا گیا ہے۔
یہاں پر مردہ دلی سے مراد یہ نہیں کہ ان دلوں کی حرکت یا دھڑکن بند ہو گئی ہے بلکہ اس سے مراد وہ دل ہیں جن میں مذکورہ چیزوں میں سے کوئی چیز نہ پائی جائے، جن پر جہالت و نحوست کی تہیں جمی ہوں اور جن میں زندگی پیدا کرنا صرف اسی طور ممکن ہے کہ مذکورہ اوصاف ان میں بتدریج پیدا کیے جائیں۔
آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ:
”جس طرح لوہا زنگ آلود ہو جاتا ہے بعینہٖ انسانی دل بھی زنگ آلود ہو جاتا ہے۔ آپ ﷺ سے دریافت کیا گیا، یا رسول اللہ ﷺ! دل کو صیقل کرنے یا اسے جلا بخشنے کا طریقہ کیا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا، اللہ ربّ العزت کا تصور اور ہر آن اس کی یاد دلوں کو جلا بخشتی ہے اور ان میں نورانیت پیدا کرتی ہے۔”
غرضیکہ جو اپنی خوابیدہ انسانیت کو بیدار کرنا چاہتا ہے، اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے دل کا جائزہ لے اور بتدریج اصلاح کی کوشش کرے ورنہ بصورتِ دیگر انسان اور حیوان میں کوئی بنیادی فرق نہ ہو گا اور ایسا انسان ﴿ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سَافِلِيْنَ﴾ اور﴿اُوْلٰٓئِكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ﴾ کے زمرے میں آجائیگا۔
٭ تو کیا ہماری تخلیق کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم کھائیں پئیں اور مر جائیں؟
٭ کیا اس کائنات میں ہم پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی؟
٭ کیا ہمیں کسی ضابطۂ اخلاق کی ضرورت نہیں؟
٭ کیا ہم انسان ہیں؟ کیا ہم اشرف المخلوقات ہیں؟
٭ کیا ہمیں ”خلیفة الارض” بننے کا شرف حاصل ہے؟
٭ اگر ہے تو کیوں؟
مسلمانو! ذرا اپنے دلوں کا جائزہ لو۔ دماغوں سے سوچو اور میرے سوالات کا جواب دو۔,،
دل ہے تو دھڑکنے کا بہانہ کوئ ڈھونڈھے
پتھر کی طرح بے حس و بے جان سا کیوں ہے،
نوٹ : اس موضوع پر مزید مطالعہ کے لئے دیکھئے الوابل الصیب ، الداء والدواء ، تفسیر ابن القیم ، طریق الھجرتین وغیرہ ،
هذا وصلي الله علي نبيينا محمد وسلم ،
كتبه ،
✍️✍️محمد محب الله بن محمد سيف الدين المحمدي ،

Posted on 1 Comment

زندہ دلی کیا ہے ؟

اصل مسئلہ دل کا ہے ، ہمارے دل مردہ ہو چکے ہیں، ان میں زندگی کی لہر دوڑانا ناگزیر ہے، دل بے شمار بیماریوں کا شکار ہیں، ان کا علاج از بس ضروری ہے۔
دل کو جسم انسانی میں ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے جو کیفیت دل کی ہوتی ہے اعمال اسی کی ترجمانی کرتے ہیں۔ دل میں فساد و بربریت ہو تو اعمال سے یقیناً درندگی ٹپکے گی اور اس کے برعکس اگر دل میں امن و آشتی کے جذبات ہوں تو اعمال سے محبت و الفت کے زمزمے پھوٹیں گے۔ اسی لئے تو آنحضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«اَلَا فِي الْجَسَدِ مُضْغَةٌ اِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الْجَسَدُ كُلُّه وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّه اَلَا وَھِيَ الْقَلْبُ »
کہ جسم انسانی میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہوتا ہے تو جسم کے تمام اعضاء درست کام کرتے ہیں۔ جب اس میں خرابی پیدا ہوتی ہے تو تمام جسم میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔
خبردار! وہ گوشت کا ٹکڑا انسانی دل ہے۔
تعمیرِ انسانیت کے لئے سب سے پہلی اور بنیادی شرط یہ ہے کہ دل میں زندگی پیدا کی جائے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زندہ دلی سے مراد کیا ہے؟ کیا اس دل کو زندہ نہیں کہا جائے گا جو معمول کے مطابق حرکت کرتا ہو اور جو دوسرے اعضاء کو باقاعدگی سے خون پہنچاتا ہو؟ زندہ دلی اسی کا نام ہے تو پھر اس کائنات میں کس کا دل مردہ ہے؟
اس سوال کا جواب میں اپنی طرف سے نہیں بلکہ علامہ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کے افادات سے دوں گا۔ جس سے یہ چیز کھل کر سامنے آجائے گی کہ زندہ دلی سے مراد کیا ہے؟
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ،
﴿وَمَاۤ أَرۡسَلۡنَا مِن قَبۡلِكَ مِن رَّسُولࣲ وَلَا نَبِیٍّ إِلَّاۤ إِذَا تَمَنَّىٰۤ أَلۡقَى ٱلشَّیۡطَـٰنُ فِیۤ أُمۡنِیَّتِهِۦ فَیَنسَخُ ٱللَّهُ مَا یُلۡقِی ٱلشَّیۡطَـٰنُ ثُمَّ یُحۡكِمُ ٱللَّهُ ءَایَـٰتِهِۦۗ وَٱللَّهُ عَلِیمٌ حَكِیمࣱ ۝٥٢ لِّیَجۡعَلَ مَا یُلۡقِی ٱلشَّیۡطَـٰنُ فِتۡنَةࣰ لِّلَّذِینَ فِی قُلُوبِهِم مَّرَضࣱ وَٱلۡقَاسِیَةِ قُلُوبُهُمۡۗ وَإِنَّ ٱلظَّـٰلِمِینَ لَفِی شِقَاقِۭ بَعِیدࣲ ۝٥٣ وَلِیَعۡلَمَ ٱلَّذِینَ أُوتُوا۟ ٱلۡعِلۡمَ أَنَّهُ ٱلۡحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَیُؤۡمِنُوا۟ بِهِۦ فَتُخۡبِتَ لَهُۥ قُلُوبُهُمۡۗ وَإِنَّ ٱللَّهَ لَهَادِ ٱلَّذِینَ ءَامَنُوۤا۟ إِلَىٰ صِرَ ٰ⁠طࣲ مُّسۡتَقِیمࣲ ۝٥٤﴾ [الحج ٥٢-٥٤]
اس آیت کی تفسیر میں علامہ ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے
”دل تین قسم کے ہیں۔ قلبِ سلیم (زندہ دل)، قلبِ میت (مردہ دل)، قلبِ مریض (بیمار دل)”
قلبِ سلیم یعنی زندہ دل کی تعریف انہوں نے ان الفاظ میں کی ہے:
«اَلَّذِيْ سَلِمَ مِنْ كُلِّ شَھْوَةٍ تُخَالِفُ اَمْرَ اللهِ وَنَھْيَه »
یعنی زندہ دل وہ ہوتا ہے جو ہر اس خواہش سے پاک ہو جو اللہ تعالیٰ کے حکمِ امتناعی اور اثباتی کے مخالف ہو۔
مزید برآں لکھتے ہیں:
«فَسَلِمَ مِنْ عَبُوْدِيَّةِ مَا سِوَاهُ مُخْلِصٌ لِلهِ مَحَبَّتِه وَخَوْفِه وَرَجَائِه وَالتَّوَكُّلِ عَلَيْهِ وَالْاِنَابَةِ اِلَيْهِ وَاِيْثَارِ مَرْضَاتِه فِيْ كُلِّ حَالٍ وَالتَّبَاعُدِ مِنْ سَخَطِه اِنْ اَحَبَّ اَحَبَّ فِي اللهِ وَاِنْ اَبْغَضَ اَبْغَضَ فِي اللهِ وَاِنْ اَعْطٰي اَعْطٰي لِلهِ وَاِنْ مَّنَعَ مَّنَعَ لِلهِ »
(دیکھئے تفسیر ابن القیم ،تحت ہذہ الآیۃ )
یعنی زندہ دل وہ ہوتا ہے جو اللہ رب العزت کی بندگی کے سوا ہر کسی کی بندگی سے محفوظ ہو جس میں اللہ تعالیٰ سے محبت اور ڈر۔ اسی سے امید اور اسی پر بھروسہ پورے اخلاص کے ساتھ پایا جائے جو ہر حالت میں اسی کے حضور جھکے، اسی کی رضا کو ترجیح دے۔ جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے دور بھاگے۔ اگر کسی کو پسند کرے تو خدا کے لئے اور اگر ناپسند کرے تو بھی خدا کے لئے۔ اگر کسی کو دینے کا جذبہ پیدا ہو تو اپنے رب کو خوش کرنے کے لئے اور اگر کسی کو نہ دینے کا ارادہ ہو تو بھی اسی کی مرضی کے مطابق۔
علاوہ ازیں زندہ دل میں یہ اوصاف بھی پائے جاتے ہیں مثلاً حیا، پاکیزگی، صبر و تحمل، شجاعت، غیرت، خودی، نیکی سے محبت اور برائی سے نفرت۔
جس دل میں یہ خوبیاں پائی جائیں، اس میں ایک نور، ایک چمک پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسا دل در حقیقت تجلیاتِ الٰہی کا مرکز ہوتا ہے۔ ایسے دِل پر انوارِ الٰہیہ کی بارش ہوتی ہے۔ اس حالت میں یہ محض ایک گوشت کا لوتھڑا نہیں ہوتا بلکہ نورانیت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بن جاتا ہے۔ جس سے محبت و الفت، امن و آشتی، رحمت و رافت، صبر و تحمل اور ہمت و شجاعت کے بخارات اُٹھتے ہیں اور رفعت و سربلندی کے بادل بن کر ہر سو پھیل جاتے ہیں۔ جن سے علم و حکمت اور عقل و دانش کی ایسی بارش ہوتی ہے کہ مردہ دلوں کے لئے حیاتِ نو کا پیام لاتی ہے اور پیاسے دلوں کو سیراب کرتی ہے۔ چنانچہ زندگی کا صحیح معنوں میں لطف اس شخص کو حاصل ہوتا ہے جو اپنے سینے میں ایسا دل رکھتا ہے جو مذکورہ بالا خوبیوں سے متصف و مشرف ہو۔ لہٰذا ہم میں سے ہر ایک کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے دل کا جائزہ لے اور یہ دیکھے کہ ان میں سے کون کون سی چیزوں میں موجود ہے اور کون کون سی چیز سے دل محروم ہے۔ جو چیز موجود ہے اس کو مستقل بنایا جائے اور جس چیز سے محرومی ہے، اس کو پیدا کیا جائے ورنہ انسانیت کی تعمیر ممکن نہیں۔
آج مسلم قوم کا یہ سب سے بڑا المیہ ہے کہ اس معیار کا صاحبِ دل عنقا ہے۔ ہر سو جہالت و مردہ دلی کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جب تک یہ چیز ختم نہیں ہوتی اس قوم کو سرخروئی نصیب نہیں ہو سکتی۔ حافظ ابنِ قیمؒ نے تو مردہ دل انسانوں کو حقیقی مردوں کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ فرماتے ہیں:
«وَھٰذَا مِنْ اَحْسَنِ التَّشْبِيْهِ لِاَنَّ اَبْدَانَهُمْ قُبُوْرُ قُلُوْبِھِمْ فَقَدْ مَاتَتْ قُلُوْبُھُمْ وَقَبْرَتْ فِيْ اَبْدَانِھِمْ »
کہ یہ ایک بہترین تشبیہ ہے اس لئے کہ ان کے بدن ان کے دلوں کی قبریں ہیں۔ دل مر گئے ہیں اور انہیں ان کے ابدان میں دفن کر دیا گیا ہے۔
یہاں پر مردہ دلی سے مراد یہ نہیں کہ ان دلوں کی حرکت یا دھڑکن بند ہو گئی ہے بلکہ اس سے مراد وہ دل ہیں جن میں مذکورہ چیزوں میں سے کوئی چیز نہ پائی جائے، جن پر جہالت و نحوست کی تہیں جمی ہوں اور جن میں زندگی پیدا کرنا صرف اسی طور ممکن ہے کہ مذکورہ اوصاف ان میں بتدریج پیدا کیے جائیں۔
آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ:
”جس طرح لوہا زنگ آلود ہو جاتا ہے بعینہٖ انسانی دل بھی زنگ آلود ہو جاتا ہے۔ آپ ﷺ سے دریافت کیا گیا، یا رسول اللہ ﷺ! دل کو صیقل کرنے یا اسے جلا بخشنے کا طریقہ کیا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا، اللہ ربّ العزت کا تصور اور ہر آن اس کی یاد دلوں کو جلا بخشتی ہے اور ان میں نورانیت پیدا کرتی ہے۔”
غرضیکہ جو اپنی خوابیدہ انسانیت کو بیدار کرنا چاہتا ہے، اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے دل کا جائزہ لے اور بتدریج اصلاح کی کوشش کرے ورنہ بصورتِ دیگر انسان اور حیوان میں کوئی بنیادی فرق نہ ہو گا اور ایسا انسان ﴿ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سَافِلِيْنَ﴾ اور﴿اُوْلٰٓئِكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ﴾ کے زمرے میں آجائیگا۔
٭ تو کیا ہماری تخلیق کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم کھائیں پئیں اور مر جائیں؟
٭ کیا اس کائنات میں ہم پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی؟
٭ کیا ہمیں کسی ضابطۂ اخلاق کی ضرورت نہیں؟
٭ کیا ہم انسان ہیں؟ کیا ہم اشرف المخلوقات ہیں؟
٭ کیا ہمیں ”خلیفة الارض” بننے کا شرف حاصل ہے؟
٭ اگر ہے تو کیوں؟
مسلمانو! ذرا اپنے دلوں کا جائزہ لو۔ دماغوں سے سوچو اور میرے سوالات کا جواب دو۔,،
دل ہے تو دھڑکنے کا بہانہ کوئ ڈھونڈھے
پتھر کی طرح بے حس و بے جان سا کیوں ہے،
نوٹ : اس موضوع پر مزید مطالعہ کے لئے دیکھئے الوابل الصیب ، الداء والدواء ، تفسیر ابن القیم ، طریق الھجرتین وغیرہ ،
هذا وصلي الله علي نبيينا محمد وسلم ،
كتبه ،
✍️✍️محمد محب الله بن محمد سيف الدين المحمدي ،