Category: Uncategorized
غزل، Gajal
غزل
سالک بستوی ایم اے
خون جگر پلا کے چمن کو سنوار دے
شاداب شاخ شاخ ،ہوا خوشگوار دے
مالی بنا ہے باغ کا تو فرض بھی نبھا
مایوس بلبلوں کو نئی پھر بہار دے
دنیا کو آئےرشک تری خوئے نیک پر
کردار پھول کی طرح اپنا نکھار دے
دنیا دیوانی ہوگی تری ایک دن ضرور
مخلوق کےدلوں میں تو خود کو اتار دے
یہ زندگی ملی ہے تجھے ؐ چارؐ روز کی
”روکرگزار یا اسے ہنس کر گزار دے“
ہوجائے گا وہ آدمی اللہ کا حبیب
جو پرخلوص قلب سے اس کو پکار دے
جھوٹی قسم جو کھا کےدیا کرتا ہےفریب
اس کو کبھی نہ بھول کےسودا ادھاردے
کرنا حسد برا ہے امیروں کے مال پر
اللہ جس کو چاہے اسے بے شمار دے
چلنے لگی ہے نسل نئی راہ پر خطر
ہے باپ تو اولاد کی عادت سدھار دے
سالک کی ہے دعا یہی پرور دگار سے
پستی میں قوم ہےمری اس کو ابھاردے
غزل، Gazal, गज़ल
ترانۂ توحید
ترانۂ توحید
سالک بستوی ایم اے
شمع دین ھدی کو جلاتے چلو
ظلمت شرک وبدعت مٹاتےچلو
جوت حسن عمل کی جگاتے چلو
زندگی کا ترانہ سناتے چلو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عزم کامل کے جوہر دکھا تے چلو
جام توحید و سنت پلا تے چلو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پنجۂ کفر و طاغوت کو موڑ دو
بغض و نفرت کی دیوارکو توڑدو
دہریت کے نشیلے سبو توڑ دو
آنکھ دکھلائے باطل توسرپھوڑ دو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلستاں حریت کا سجاتے چلو
جام توحید وسنت پلاتے چلو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم موحد ہو حاجت روا ہے خدا
صرف رب دوعالم ہےحاجت روا
جس کےسینے میں ہے نورایمان کا
سرفرازی کا جلوہ ہے اس پر فدا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راہ حق پر چلو مسکراتے چلو
جام توحید وسنت پلاتے چلو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم سجاتے رہو دین کی رہ گزر
اسوۂ مصطفے پر فدا ہو نظر
فکر ملت رہے تم کو شام وسحر
منزل ارتقاء پر چلو جھو م کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاؤ ں منزل کی جانب بڑھاتےچلو
جام توحید وسنت پلا تے چلو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی منزل کی جانب بڑھاؤ قدم
پھونک دو کفر کے خارزار ستم
لے کے توحید وسنت کا سالک علم
شوق سے تم سناؤ نوائے حرم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فتنۂ دہریت کو دباتے چلو
جام توحید وسنت پلاتے چلو
منکرین حدیث کا شوشہ اور مرتد کی سزا
*#منکرین_حدیث_کا_شوشہ_اور_مرتد_کی_سزا**تحریر: عبدالخبیر السلفی*
منکرین حدیث کے حدیث کے خلاف پھیلائے گئے بہت سارے شوشوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مرتد کی دنیاوی سزا قرآن کے خلاف ہے آئندہ سطور میں اسی شوشہ سے متعلق چند باتیں قارئین کی خدمت میں پیش کی جائیں گی!*ارتداد کی سزا قرآن و حدیث کی روشنی میں*منکرین حدیث کے اٹھائے شوشوں میں سے ایک شوشہ یہ بھی ہے کہ ارتداد کی سزا حدیث میں موت بتلائی گئی ہے جو قرآن کے خلاف ہے کیوں کہ قرآن میں ایسی کوئی دنیاوی سزا کا ذکر نہیں ہے اور اس کے ثبوت میں قرآن کی یہ آیات پیش کرتے ہیں 1_ اللہ تعالٰی فرماتا ہے:”كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ وَشَهِدُوا أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ، أُولَٰئِكَ جَزَاؤُهُمْ أَنَّ عَلَيْهِمْ لَعْنَةَ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، خَالِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنظَرُونَ” (آل عمران:86_88)ترجمہ: اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو کیسے ہدایت دے گا جو اپنے ایمان لانے اور رسول کی حقانیت کی گواہی دینے اور اپنے پاس روشن دلیلیں آ جانے کے بعد کافر ہوجائیں، اللہ تعالیٰ ایسے بے انصاف لوگوں کو راہ راست پر نہیں لاتا۔ان کی تو یہی سزا ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔ جس میں یہ ہمیشہ پڑے رہیں گے نہ تو ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا نہ انہیں مہلت دی جائے گی۔2_ اللہ تعالٰی فرماتا ہے:”إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَّمْ يَكُنِ اللَّهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيلًا” (النساء:137)ترجمہ: جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور پھر گئے، پھر ایمان لا کر پھر کفر کیا، پھر اپنے کفر میں بڑھ گئے اللہ تعالیٰ یقیناً انہیں نہ بخشے گا اور نہ انہیں راہ ہدایت سمجھائے گا۔ *طریقہ استدلال*یہ اور اس معنی اور مفہوم کی اور بھی آیات ہو سکتی ہیں جن سے حدیث میں موجود ارتداد کی سزا کے مخالف قرآن ہونے پر استدلال کیا جاتا ہے طریقہ استدلال یہ ہے کہ قرآن مجید نے یہاں مرتد کی کسی بھی سزا کا ذکر نہیں کیا ہے بلکہ صرف اخروی سزا کا ذکر ہے حالانکہ یہ کوئی قائدہ نہیں کہ ایک جگہ کسی چیز کا ذکر نہیں ہے تو وہ دوسری جگہ نا ہو اس اصول سے کئی آیات کو معطل کیا جا سکتا! پھر منکرین کا یہ بھی کہنا ارتداد کی دنیاوی سزا جو حدیث سے ثابت ہے قرآن کی روح سے میچ نہیں کھاتی جو “لا اكراه في الدين ” فرماکر ہر شخص کو عقیدہ کی آزادی دیتا ہے اس کا بھی جواب ان شاء اللہ ضمنا آئے گا، آگے بڑھنے سے قبل چند باتیں ذہن نشین کر لیں!*چند ملاحظات* اکثر دیکھا گیا ہے کہ ارتداد کی سزا کو لیکر غیر مسلموں کی طرف سے اعتراضات ہوتے رہتے ہیں اور یہ تاثر دیا جاتا کہ اسلام میں ارتداد کی سزا موت ہے اور جو بھی مرتد ہو اس کو کوئی بھی مسلمان فورا پکڑ کر اور بغیر کسی تحقیق کے سیدھا قتل کر سکتا ہے، معترضین کی دیکھا دیکھی اور مرعوبیت کا شکار ہو کر بعض نام نہاد “مسلم اسکالر ” بھی اسی راہ پر گامزن ہیں اس لئے منکرین کے استدلال کی تردید سے قبل خاص طور پر دو باتیں قابل غور ہیں:1_ *ارتداد کی سزا ایک حد اور دفعہ ہے*اسلامی رو سے حد یا دفعہ کا مطلب ہے وہ سزائیں جو مجرم کو حقوق اللہ میں کوتاہی یا نا فرمانی، غداری وغیرہ کرنے کی وجہ سے اسلامی حکومت کے توسط سے دی جاتی ہیں جیسے چور کا ہاتھ کاٹنا ناحق جان کے بدلے میں قاتل کو قتل کرنا زانی کو کوڑے یا رجم وغیرہ یعنی یہ ایک طرز حکومت ہے جس میں من جانب اللہ اسلامی حکومت کو سزا دینے کا حق دیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسلم عوام کو حدود قائم کرنے کا اختیار نہیں ہے بلکہ یہ حکومت کی زیر نگرانی قائم کی جاتی ہیں جب یہ ایک حکومتی دفعہ ہے تو اس پر کسی کو اعتراض کا حق کیسے ہو سکتا ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں دنیا میں کئی سیکولر حکومتیں ایسی ہیں جنہوں نے قتل کی سزائیں مقرر کر رکھیں ہیں ہمارے یہاں ہندوستان میں بھی کتنے ہی لوگوں کو پھانسی یا قتل کی سزائیں دی جاتی رہی ہیں اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے 2_ مذہب تبدیل کرنے پر موت کی سزا کوئی اسلام کی ایجاد نہیں بلکہ کافروں بلکہ اہل کتاب میں بھی اس سے پہلے یہ سلسلہ جاری رہا ہے یہودیوں کے ہاتھوں عیسائیوں کا قتل عام اور عیسائیوں کے ہاتھوں یہودیوں کا قتل عام اسلام سے قبل بھی جاری تھا قرآن اس کی شہادت دیتا ہے :”قُتِلَ اَصْحَابُ الْاُخْدُوْدِ، اَلنَّارِ ذَاتِ الْوَقُوْدِ، اِذْ هُـمْ عَلَيْـهَا قُعُوْدٌ، وَهُـمْ عَلٰى مَا يَفْعَلُوْنَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ شُهُوْدٌ، وَمَا نَقَمُوْا مِنْـهُـمْ اِلَّآ اَنْ يُّؤْمِنُـوْا بِاللّـٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَـمِيْدِ ” (البروج : 4_8)خندقوں والے ہلاک ہوئے۔ جن میں آگ تھی بہت ایندھن والی۔جب کہ وہ اس کے کنارو ں پر بیٹھے ہوئے تھے۔اور وہ ایمانداروں سے جو کچھ کر رہے تھے اس کو دیکھ رہے تھے۔اور ان سے اسی کا تو بدلہ لے رہے تھے کہ وہ اللہ زبردست خوبیوں والے پر ایمان لائے تھے۔زمانہ جاہلیت کے کفار و مشرکین نے حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کو صرف دین بدلنے کی ہی وجہ سے شہید کیا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا فرمان دار الندوہ میں اسی مقصد کے تحت پاس ہوا تھا، بدر احد اور خندق کی مسلمانوں پر چڑھائی بھی اسی جذبے کے تحت تھی ورنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا مسلمانوں نے کفار کی زمینیں و جائیدادیں تو ہڑپ نہیں کی تھیں؟ ہمارے یہاں ہندوستان میں صدیوں سے چلی آرہی جنگیں جن میں لاکھوں لوگوں کو قتل کیا گیا اسی جذبہ سے تھا اور اس دور جدید میں بھی بھیڑ کی شکل میں نہتھوں کو رنگ جانوروں کے نام پر موت کی نیند سلا دیا اور کتنوں کو آگ کے حوالہ کر دیا جاتا ہے اس کے پیچھے بھی یہی مقصد ہوتا ہے لیکن واہ رے منصفوں تمہیں اعتراض صرف اسلام پر ہی کرنا آتا ہے!ان ملاحظات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام ارتداد کی سزا کو ایک معاشرتی جرم کی طرح دیکھتا ہے کہ وہ ایک مسلمان کو یہ اجازت ہرگز نہیں دیتا کہ وہ اسلامی حکومت میں رہتے ہوئے اللہ اور اس حکومت سے غداری کرے جو اس کے اچھے بھلے کی ہر طرح سے کفالت کرتی ہے جیسے کتنی ہی حکومتوں نے آج بھی وطن سے غداری کے نام پر موت کی سزائیں مقرر کر رکھیں ہیں جبکہ ہر شخص جانتا ہے ہر کس و نا کس کے یہاں وطن سے زیادہ اہمیت اس کے دین کو ہے چاہے وہ اس کا إقرار کرے یا نا کرے! ہاں اگر کوئی غیر مسلم ہے اس تک اسلام کی حقانیت نہیں پہنچی یا مسلمان اس کو اسلام کی حقانیت نہیں سمجھا سکے تو اس کو ایک پر امن شہری کی طرح اسلامی حکومت میں رہنے کی مکمل آزادی ہے دین کو لیکر اس پر کوئی جبر نہیںاس سے مزید یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے اس کو قانون اور دفعہ کی حیثیت دی ہے ما قبل اسلام اور ما بعد اسلام غیر مسلموں کے جنگل راج کی طرح اس کو عوام کے حوالہ نہیں کیا ہے کہ کوئی بھی الزام تراشی کرکے کسی سے بھی اپنے من کی بھڑاس نکال لے! *ارتداد کی سزا اور منکرین حدیث کی تردید*مرتد کی سزا کے سلسلہ میں جو موقف ہے وہ تقریبا متفق علیہ ہے اس میں شاید ہی کسی معتبر امام یا محدث نے اختلاف کیا ہو ؟ اس کی بنیاد حدیث کی طرح قرآن مجید میں بھی ہے منکرین حدیث کا یہ باطل پروپیگنڈہ ہے کہ ارتداد کی دنیاوی سزا صرف حدیث میں ہے جو قرآن کے خلاف ایک سازش ہے، پہلے حدیث دیکھتے ہیں کیوں حدیث بھی قرآن ہی کی طرح شریعت کا مآخذ ہے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں یاد رہے یہ حدیث اس موقع پر إبن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان فرمائی جب کہ ان کو یہ خبر موصول ہوئی کہ کچھ لوگوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حکم سے بطور سزا آگ سے جلایا جا رہا ہے تو انہوں نے فرمایا کہ اگر میں ہوتا تو ان کو آگ سے نا جلاتا، پھر فرمایا تم لوگ اللہ کے عذاب سے عذاب نا دو! بلکہ میں ان کو قتل کرتا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ “. جس نے دین بدلا اس کو قتل کر دو (بخاری:3017، أبو داود:4351 ، ترمذی:1458، نسائی:4075، ابن ماجہ: 2070، مسند احمد:1871، ابن حبان:4475، المعجم الأوسط للطبرانی 8/275) یہ مختلف حوالے عربی اور عجمی محدثین کے اس لئے بیان کئے گئے ہیں تاکہ منکرین سنت کے اس پروپیگنڈہ کی بھی نقاب کشائی ہو جو بات بات پر کہتے ہیں یہ عجمیوں اور بخاری کی قرآن کے خلاف سازش ہے اور کئی حوالے جان بوجھ کے چھوڑ دیے ہیں طوالت کے خوف سے۔*قرآن مجید سے ارتداد کی دنیاوی سزا* ابھی گزرا حدیث کی طرح قرآن میں بھی ارتداد کی دنیاوی سزا کا ذکر موجود ہے ملاحظہ فرمائیں، اللہ تعالٰی فرماتا ہے: “وَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ كَمَا كَفَرُوا فَتَكُونُونَ سَوَاءً ۖ فَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِيَاءَ حَتَّىٰ يُهَاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ۖ وَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا” (سورہ نساء:89)ترجمہ: ان کی تو چاہت ہے کہ جس طرح کے کافر وہ ہیں تم بھی ان کی طرح کفر کرنے لگو اور پھر سب یکساں ہوجاؤ، پس جب تک یہ اسلام کی خاطر ہجرت نا کر لیں ان میں سے کسی کو حقیقی دوست نہ بناؤ پھر اگر یہ منہ پھیر لیں تو انہیں پکڑو اور قتل کرو جہاں بھی ہاتھ لگ جائیں خبردار ان میں سے کسی کو اپنا رفیق اور مددگار نہ سمجھ بیٹھنا۔یہ آیت ان تین سو منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی جو جنگ احد کے موقع پر مسلمانوں سے الگ ہو گئے تھے ان کے تعلق سے مسلمانوں کے دو گروہ ہو گئے تھے ایک کا خیال تھا پہلے ان سے قتال کیا جائے پھر حملہ آور مکہ کے کافروں کی خبر لی جائے دوسرے گروہ کا کہنا تھا ان کو ابھی نظر انداز کر دیا جائے اللہ نے مسلمانوں کے پہلے گروہ کی تائید فرمائی اور نصیحت فرمائی پھر اگلی آیت میں یہ حکم دیا کہ اگر یہ اسلام کی خاطر ہجرت نا کریں ( رجوع الی اللہ نا کریں ) تو ان کو جہاں پاؤ قتل کرو یہ آیت کریمہ واضح طور پر منافقوں کی سزا قتل متعین کرتی ہے چونکہ انہوں نے اپنے دیرینہ نفاق کی وجہ بظاہر رجوع الی اللہ کر لیا اس لئے دنیاوی سزا سے بچ گئے اس سے منکرین حدیث کی غلط بیانی بھی معلوم ہوتی در حقیقت جو حدیث کا منکر ہے وہ قرآن کا بھی منکر ہے کیوں کہ کوئی بھی صحیح حدیث ایسی موجود نہیں جو بظاہر قرآن کے خلاف نظر آتی ہو اور اس کی مناسب توجیہ نا کی جا سکتی ہو !
زندہ دلی کیا ہے ؟
اصل مسئلہ دل کا ہے ، ہمارے دل مردہ ہو چکے ہیں، ان میں زندگی کی لہر دوڑانا ناگزیر ہے، دل بے شمار بیماریوں کا شکار ہیں، ان کا علاج از بس ضروری ہے۔
دل کو جسم انسانی میں ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے جو کیفیت دل کی ہوتی ہے اعمال اسی کی ترجمانی کرتے ہیں۔ دل میں فساد و بربریت ہو تو اعمال سے یقیناً درندگی ٹپکے گی اور اس کے برعکس اگر دل میں امن و آشتی کے جذبات ہوں تو اعمال سے محبت و الفت کے زمزمے پھوٹیں گے۔ اسی لئے تو آنحضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«اَلَا فِي الْجَسَدِ مُضْغَةٌ اِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الْجَسَدُ كُلُّه وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّه اَلَا وَھِيَ الْقَلْبُ »
کہ جسم انسانی میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہوتا ہے تو جسم کے تمام اعضاء درست کام کرتے ہیں۔ جب اس میں خرابی پیدا ہوتی ہے تو تمام جسم میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔
خبردار! وہ گوشت کا ٹکڑا انسانی دل ہے۔
تعمیرِ انسانیت کے لئے سب سے پہلی اور بنیادی شرط یہ ہے کہ دل میں زندگی پیدا کی جائے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زندہ دلی سے مراد کیا ہے؟ کیا اس دل کو زندہ نہیں کہا جائے گا جو معمول کے مطابق حرکت کرتا ہو اور جو دوسرے اعضاء کو باقاعدگی سے خون پہنچاتا ہو؟ زندہ دلی اسی کا نام ہے تو پھر اس کائنات میں کس کا دل مردہ ہے؟
اس سوال کا جواب میں اپنی طرف سے نہیں بلکہ علامہ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کے افادات سے دوں گا۔ جس سے یہ چیز کھل کر سامنے آجائے گی کہ زندہ دلی سے مراد کیا ہے؟
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ،
﴿وَمَاۤ أَرۡسَلۡنَا مِن قَبۡلِكَ مِن رَّسُولࣲ وَلَا نَبِیٍّ إِلَّاۤ إِذَا تَمَنَّىٰۤ أَلۡقَى ٱلشَّیۡطَـٰنُ فِیۤ أُمۡنِیَّتِهِۦ فَیَنسَخُ ٱللَّهُ مَا یُلۡقِی ٱلشَّیۡطَـٰنُ ثُمَّ یُحۡكِمُ ٱللَّهُ ءَایَـٰتِهِۦۗ وَٱللَّهُ عَلِیمٌ حَكِیمࣱ ٥٢ لِّیَجۡعَلَ مَا یُلۡقِی ٱلشَّیۡطَـٰنُ فِتۡنَةࣰ لِّلَّذِینَ فِی قُلُوبِهِم مَّرَضࣱ وَٱلۡقَاسِیَةِ قُلُوبُهُمۡۗ وَإِنَّ ٱلظَّـٰلِمِینَ لَفِی شِقَاقِۭ بَعِیدࣲ ٥٣ وَلِیَعۡلَمَ ٱلَّذِینَ أُوتُوا۟ ٱلۡعِلۡمَ أَنَّهُ ٱلۡحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَیُؤۡمِنُوا۟ بِهِۦ فَتُخۡبِتَ لَهُۥ قُلُوبُهُمۡۗ وَإِنَّ ٱللَّهَ لَهَادِ ٱلَّذِینَ ءَامَنُوۤا۟ إِلَىٰ صِرَ ٰطࣲ مُّسۡتَقِیمࣲ ٥٤﴾ [الحج ٥٢-٥٤]
اس آیت کی تفسیر میں علامہ ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے
”دل تین قسم کے ہیں۔ قلبِ سلیم (زندہ دل)، قلبِ میت (مردہ دل)، قلبِ مریض (بیمار دل)”
قلبِ سلیم یعنی زندہ دل کی تعریف انہوں نے ان الفاظ میں کی ہے:
«اَلَّذِيْ سَلِمَ مِنْ كُلِّ شَھْوَةٍ تُخَالِفُ اَمْرَ اللهِ وَنَھْيَه »
یعنی زندہ دل وہ ہوتا ہے جو ہر اس خواہش سے پاک ہو جو اللہ تعالیٰ کے حکمِ امتناعی اور اثباتی کے مخالف ہو۔
مزید برآں لکھتے ہیں:
«فَسَلِمَ مِنْ عَبُوْدِيَّةِ مَا سِوَاهُ مُخْلِصٌ لِلهِ مَحَبَّتِه وَخَوْفِه وَرَجَائِه وَالتَّوَكُّلِ عَلَيْهِ وَالْاِنَابَةِ اِلَيْهِ وَاِيْثَارِ مَرْضَاتِه فِيْ كُلِّ حَالٍ وَالتَّبَاعُدِ مِنْ سَخَطِه اِنْ اَحَبَّ اَحَبَّ فِي اللهِ وَاِنْ اَبْغَضَ اَبْغَضَ فِي اللهِ وَاِنْ اَعْطٰي اَعْطٰي لِلهِ وَاِنْ مَّنَعَ مَّنَعَ لِلهِ »
(دیکھئے تفسیر ابن القیم ،تحت ہذہ الآیۃ )
یعنی زندہ دل وہ ہوتا ہے جو اللہ رب العزت کی بندگی کے سوا ہر کسی کی بندگی سے محفوظ ہو جس میں اللہ تعالیٰ سے محبت اور ڈر۔ اسی سے امید اور اسی پر بھروسہ پورے اخلاص کے ساتھ پایا جائے جو ہر حالت میں اسی کے حضور جھکے، اسی کی رضا کو ترجیح دے۔ جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے دور بھاگے۔ اگر کسی کو پسند کرے تو خدا کے لئے اور اگر ناپسند کرے تو بھی خدا کے لئے۔ اگر کسی کو دینے کا جذبہ پیدا ہو تو اپنے رب کو خوش کرنے کے لئے اور اگر کسی کو نہ دینے کا ارادہ ہو تو بھی اسی کی مرضی کے مطابق۔
علاوہ ازیں زندہ دل میں یہ اوصاف بھی پائے جاتے ہیں مثلاً حیا، پاکیزگی، صبر و تحمل، شجاعت، غیرت، خودی، نیکی سے محبت اور برائی سے نفرت۔
جس دل میں یہ خوبیاں پائی جائیں، اس میں ایک نور، ایک چمک پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسا دل در حقیقت تجلیاتِ الٰہی کا مرکز ہوتا ہے۔ ایسے دِل پر انوارِ الٰہیہ کی بارش ہوتی ہے۔ اس حالت میں یہ محض ایک گوشت کا لوتھڑا نہیں ہوتا بلکہ نورانیت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بن جاتا ہے۔ جس سے محبت و الفت، امن و آشتی، رحمت و رافت، صبر و تحمل اور ہمت و شجاعت کے بخارات اُٹھتے ہیں اور رفعت و سربلندی کے بادل بن کر ہر سو پھیل جاتے ہیں۔ جن سے علم و حکمت اور عقل و دانش کی ایسی بارش ہوتی ہے کہ مردہ دلوں کے لئے حیاتِ نو کا پیام لاتی ہے اور پیاسے دلوں کو سیراب کرتی ہے۔ چنانچہ زندگی کا صحیح معنوں میں لطف اس شخص کو حاصل ہوتا ہے جو اپنے سینے میں ایسا دل رکھتا ہے جو مذکورہ بالا خوبیوں سے متصف و مشرف ہو۔ لہٰذا ہم میں سے ہر ایک کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے دل کا جائزہ لے اور یہ دیکھے کہ ان میں سے کون کون سی چیزوں میں موجود ہے اور کون کون سی چیز سے دل محروم ہے۔ جو چیز موجود ہے اس کو مستقل بنایا جائے اور جس چیز سے محرومی ہے، اس کو پیدا کیا جائے ورنہ انسانیت کی تعمیر ممکن نہیں۔
آج مسلم قوم کا یہ سب سے بڑا المیہ ہے کہ اس معیار کا صاحبِ دل عنقا ہے۔ ہر سو جہالت و مردہ دلی کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جب تک یہ چیز ختم نہیں ہوتی اس قوم کو سرخروئی نصیب نہیں ہو سکتی۔ حافظ ابنِ قیمؒ نے تو مردہ دل انسانوں کو حقیقی مردوں کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ فرماتے ہیں:
«وَھٰذَا مِنْ اَحْسَنِ التَّشْبِيْهِ لِاَنَّ اَبْدَانَهُمْ قُبُوْرُ قُلُوْبِھِمْ فَقَدْ مَاتَتْ قُلُوْبُھُمْ وَقَبْرَتْ فِيْ اَبْدَانِھِمْ »
کہ یہ ایک بہترین تشبیہ ہے اس لئے کہ ان کے بدن ان کے دلوں کی قبریں ہیں۔ دل مر گئے ہیں اور انہیں ان کے ابدان میں دفن کر دیا گیا ہے۔
یہاں پر مردہ دلی سے مراد یہ نہیں کہ ان دلوں کی حرکت یا دھڑکن بند ہو گئی ہے بلکہ اس سے مراد وہ دل ہیں جن میں مذکورہ چیزوں میں سے کوئی چیز نہ پائی جائے، جن پر جہالت و نحوست کی تہیں جمی ہوں اور جن میں زندگی پیدا کرنا صرف اسی طور ممکن ہے کہ مذکورہ اوصاف ان میں بتدریج پیدا کیے جائیں۔
آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ:
”جس طرح لوہا زنگ آلود ہو جاتا ہے بعینہٖ انسانی دل بھی زنگ آلود ہو جاتا ہے۔ آپ ﷺ سے دریافت کیا گیا، یا رسول اللہ ﷺ! دل کو صیقل کرنے یا اسے جلا بخشنے کا طریقہ کیا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا، اللہ ربّ العزت کا تصور اور ہر آن اس کی یاد دلوں کو جلا بخشتی ہے اور ان میں نورانیت پیدا کرتی ہے۔”
غرضیکہ جو اپنی خوابیدہ انسانیت کو بیدار کرنا چاہتا ہے، اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے دل کا جائزہ لے اور بتدریج اصلاح کی کوشش کرے ورنہ بصورتِ دیگر انسان اور حیوان میں کوئی بنیادی فرق نہ ہو گا اور ایسا انسان ﴿ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سَافِلِيْنَ﴾ اور﴿اُوْلٰٓئِكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ﴾ کے زمرے میں آجائیگا۔
٭ تو کیا ہماری تخلیق کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم کھائیں پئیں اور مر جائیں؟
٭ کیا اس کائنات میں ہم پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی؟
٭ کیا ہمیں کسی ضابطۂ اخلاق کی ضرورت نہیں؟
٭ کیا ہم انسان ہیں؟ کیا ہم اشرف المخلوقات ہیں؟
٭ کیا ہمیں ”خلیفة الارض” بننے کا شرف حاصل ہے؟
٭ اگر ہے تو کیوں؟
مسلمانو! ذرا اپنے دلوں کا جائزہ لو۔ دماغوں سے سوچو اور میرے سوالات کا جواب دو۔,،
دل ہے تو دھڑکنے کا بہانہ کوئ ڈھونڈھے
پتھر کی طرح بے حس و بے جان سا کیوں ہے،
نوٹ : اس موضوع پر مزید مطالعہ کے لئے دیکھئے الوابل الصیب ، الداء والدواء ، تفسیر ابن القیم ، طریق الھجرتین وغیرہ ،
هذا وصلي الله علي نبيينا محمد وسلم ،
كتبه ،
✍️✍️محمد محب الله بن محمد سيف الدين المحمدي ،