Posted on Leave a comment

ایک وہ بھی تھے علم کے شیدائی از قلم… نسیم اختر عبد المجید سلفی / استاد حدیث وادب عربی جامعۃ الامام الالبانی رہی ہے ۔

تاریخ اسلامی کا وہ حساس اور پر آشوب دور تھا جب اندلس سے ایک طالب علم بغداد کا رخ کرتا ہے منطق و فلسفہ اور علم کلام کی موشگافیوں نے ایک نیافتنہ “خلق قرآن “کو جنم دیا حتی کہ خلیفہ وقت بھی اس کا شکار ہو گیا امام اہل سنت احمد بن حنبل رحمہ اللہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے ” القرآن كلام الله ليس بمخلوق ” اور مخالفین کو للکارتے رہے کہ خلق قرآن پر کوئی دلیل ہے تو لاؤ ہم مان لیں گے۔ خلیفۂ وقت نے قید وبند کی سزائیں دی پھر جیل سے رہا ہوئے تو گھر میں نظر بند کر دیا تدریس سے روک دیا عوامی تعلقات پر قدغن لگا دی اس اثناء میں بقی بن مخلد اندلس سے حصول علم کے لیے بغداد وارد ہوتے ہیں یہاں پہنچ کر حالات کی سنگینی کا علم ہوا لوگوں سے امام احمد کے گھر کا پتہ پوچھتے ہوئےپہنچے دروازے پہ دستک دی امام نکل کر آئے بقی بن مخلد گویا ہوئے: ابو عبد اللہ! میں ایک مسافر اور پردیسی ہوں پہلی دفعہ اس ملک میں آیا ہوں مقصد علم حدیث کا حصول ہے اور منزل مقصود آپ ہیں امام اہل سنت پوچھتے ہیں: کہاں سے آئے ہو ؟ مغرب اقصی سے.. جواب دیا افریقہ سے ؟ نہیں بلکہ اس بھی زیادہ دور.. اندلس سے امام احمد : تم واقعی بہت دور سے آئے ہو اور مجھے تمہاری مدد ضرور کرنی چاہئے مگر میں آزمائش کے دور سے گزر رہا ہوں جس کا تمہیں شاید علم ہے. بقی بن مخلد: ہاں مجھے پتہ ہے مگر یہاں مجھے کوئی جاننے والا نہیں اگر آپ مجھے اجازت دیں تو ہر روز میں آپ کی خدمت میں ایک بھکاری کے روپ میں آؤں گااور دروازے پر پہنچ کر وہی کہوں گا جو سوالی کہتا ہے اور آپ نکل کر کم از کم ایک حدیث بیان کر دیں گے یہی میرے لیے کافی ہوگا – غالب نے کہا تھا بدل کر فقیروں کا ہم بھیس غالب پہن گدڑی زلف صنم دیکھتے ہیں علم کا شیدائی کبھی ہار نہیں مانتا امام احمد نے کہا : ٹھیک ہے مگر ایک شرط ہے کہ کسی کے سامنے میرا نام ظاہر نہ کرنا حتی کہ محدثین کے سامنے بھی – بقی بن مخلد نے کہا: مجھے یہ شرط منظور ہے. لہذا اپنے ہاتھوں میں چھڑی لیکر سر میں میلا چیتھڑا لپیٹ کردروازےپر آتے اورآواز لگاتے” الاجر رحمك الله ” بھیک دے دو اللہ تم پر رحم کرے وہ برابر یہی کرتے رہے حتی کہ واثق باللہ فوت ہو گیا اور متوکل علی اللہ خلیفہ بنا ( سیر اعلام النبلاء: شمس الدین ذہبی )عزیز طلبہ! تاریخ کے اس عظیم واقعہ سے ہم سب کو سبق لینے کی ضرورت ہے ،ہم سب مختلف دور دراز مقامات سے حصول علم کے لیے اس بستی میں وارد ہوئے ہیں ،گھربار عزیز واقارب سے دوری اور مشاغل دنیوی سے کنارہ کشی کا بس ایک ہی مقصد ہے کہ ليتفقهوا فى الدين تاکہ آج ہم اپنا جائزہ لیں کیا واقعی جس مقصد کے لیے اس مرکز علم میں پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں سنجیدہ ہیں یا لاابالی پن میں زندگی کٹ رہی ہےدین کی گہری بصیرت حاصل کریں

Posted on Leave a comment

تراویح اور اہم معلومات : شیخ عبد البر مدنی حفظہ اللہ

شیخ عبد البر مدنی حفظہ اللہ کی تراویح کے متعلق ایک مختصر، معتدل ونہایت مفید تحریر•••••••••••••••••••••••••••••••••••••قیام اللیل – قیام رمضان1. صلاۃ اللیل، قیام اللیل، صلاۃ تہجد، وتر (بعض نصوص میں) اسی طرح رمضان کے مہینہ میں قیام رمضان اور صلاۃ تراویح (بعد کے ادوار میں) یہ سب در حقیقت ایک ہی صلاۃ کے مختلف نام ہیں جو رات میں صلاۃ عشاء کے بعد اور وقت فجر سے پہلے ادا کی جاتی ہے.اسی وجہ سے جب ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا تھا :كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان ؟ تو انہوں نے جواب دیا: ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزيد في رمضان ولا في غيره على إحدى عشرة ركعة.(صحیح بخاری 1147)جس سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے مہینہ میں قیام رمضان یا صلاۃ تراویح کے نام سے کوئی اضافی صلاۃ نہیں ادا کیا کرتے تھے.2. قیام اللیل یا قیام رمضان کا وقت صلاۃ عشاء کے بعد سے طلوع فجر سے پہلے تک ہوتا ہے. عن علي رضی اللہ عنہ قال : من كل الليل قد أوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم من أوله، وأوسطه، وانتهى وتره إلى السحر. (سنن ابن ماجہ 1186)وعن عائشة رضی اللہ عنہا قالت : كل الليل أوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم وانتهى وتره إلى السحر. (صحیح بخاری 996)3. صلاۃ اللیل کا افضل وقت رات کا آخری پہر ہے.عن عبد الرحمن بن عبد القاري أنه قال: خرجت مع عمر بن الخطاب رضي الله عنه ليلة في رمضان إلى المسجد، فإذا الناس أوزاع متفرقون، يصلي الرجل لنفسه، ويصلي الرجل فيصلي بصلاته الرهط، فقال عمر : إني أرى لو جمعت هؤلاء على قارئ واحد لكان أمثل. ثم عزم فجمعهم على أبي بن كعب، ثم خرجت معه ليلة أخرى والناس يصلون بصلاة قارئهم، قال عمر : نعم البدعة هذه، والتي ينامون عنها أفضل من التي يقومون. يريد آخر الليل، وكان الناس يقومون أوله. (صحيح بخاري 2010)وعن أبي هريرة رضی اللہ عنہ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ” ينزل ربنا تبارك وتعالى حين يبقى ثلث الليل الآخر كل ليلة، فيقول: من يسألني فأعطيه ؟ من يدعوني فأستجيب له ؟ من يستغفرني فأغفر له ؟ حتى يطلع الفجر “. فلذلك كانوا يستحبون صلاة آخر الليل على أوله. (سنن ابن ماجہ 1366)4. صلاۃ اللیل کی رکعات کی کوئی متعین تعداد نہیں جس میں کمی اور بیشی کی گنجائش نہ ہو. ابن عبد البر فرماتے ہیں : “لا خلاف بين أهل العلم أن صلاة الليل ليس له حد محدود، بل هو فعل خير وعمل بر، فمن شاء استقل ومن شاء استكثر. ” التمهيدنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قیام اللیل کبھی سات کبھی نو کبھی گیارہ اور کبھی تیرہ رکعات ادا فرمایا کرتے تھے، البتہ آپ کا عمومی معمول گیارہ رکعات کا تھا. اس تعلق سے چند احادیث ملاحظہ ہوں :عن مسروق قال : سألت عائشة رضي الله عنها عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم بالليل، فقالت : سبع وتسع، وإحدى عشرة، سوى ركعتي الفجر. (صحیح بخاری 1139)عن عبد الله بن أبي قيس قال : قلت لعائشة رضي الله عنها : بكم كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يوتر ؟ قالت : كان يوتر بأربع وثلاث، وست وثلاث، وثمان وثلاث، وعشر وثلاث، ولم يكن يوتر بأنقص من سبع، ولا بأكثر من ثلاث عشرة. (سنن ابى داود 1362)عن أبي سلمة بن عبد الرحمن أنه سأل عائشة رضي الله عنها : كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان ؟ فقالت : ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزيد في رمضان ولا في غيره على إحدى عشرة ركعة، يصلي أربعا فلا تسأل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي أربعا فلا تسأل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي ثلاثا. (صحيح بخاری 1147)مذکورہ تینوں احادیث ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہیں جن سے یہ واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ صلوات خمسہ کی متعینہ رکعات کی طرح سے صلاۃ اللیل کی رکعات کی تعداد متعین نہیں جس میں کمی بیشی کی گنجائش نہ ہو. اسی وجہ سے اسلاف کے یہاں اس سلسلہ میں مختلف معمول رہا ہے.امام ترمذی رحمہ اللہ قیام رمضان کے تعلق سے فرماتے ہیں : رأى بعض أهل العلم أن يصلي إحدى وأربعين ركعة مع الوتر وهو قول أهل المدينة والعمل على هذا عندهم بالمدينة. اور امام شافعی وغیرہ ائمہ سے بیس کا قول نقل کر کے فرماتے ہیں : وقال الشافعي: وهكذا أدركت ببلدنا بمكة يصلون عشرين ركعة. وقال أحمد : روي في هذا ألوان ولم يقض فيه بشيء. (سنن ترمذى كتاب الصوم باب ما جاء في قيام شهر رمضان)5. اس وقت مسلمانان عالم میں قیام رمضان میں معمول بہ آٹھ یا بیس رکعات ہیں، اور دونوں ہی فریق اپنے اپنے عمل کو افضل قرار دینے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور صرف کرتے ہیں ، آئیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند احادیث کی روشنی میں اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں :عن جابر رضي الله عنه قال : سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم ؛ أي الصلاة أفضل ؟ قال : ” طول القنوت “. (صحیح مسلم 756/165)عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما قال : قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم : ” أحب الصيام إلى الله صيام داود ؛ كان يصوم يوما ويفطر يوما، وأحب الصلاة إلى الله صلاة داود ؛ كان ينام نصف الليل ويقوم ثلثه وينام سدسه “. (صحیح بخاری 3420)اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بھی تقریباً ثلث لیل کا ہی تھا :عن كريب – مولى ابن عباس – أن عبد الله بن عباس أخبره أنه بات ليلة عند ميمونة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، وهي خالته، … فنام رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا انتصف الليل، أو قبله بقليل أو بعده بقليل، استيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم … ثم قام إلى شن معلقة فتوضأ منها فأحسن وضوءه ثم قام يصلي، قال ابن عباس : فقمت فصنعت مثل ما صنع، ثم ذهبت فقمت إلى جنبه … فصلى ركعتين، ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم أوتر، ثم اضطجع حتى أتاه المؤذن، فقام فصلى ركعتين خفيفتين ثم خرج فصلى الصبح. (صحیح بخاری 183)اب اگر کوئی گیارہ رکعات کے ساتھ ثلث لیل قیام کرتا ہے اور دوسرا بیس رکعات کے ساتھ ایک گھنٹہ قیام کرتا ہے اور رکعات کی زیادتی کی وجہ سے اپنی صلاۃ کو افضل تصور کرتا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہو گی. اسی طرح اگر کوئی بیس رکعات کے ساتھ ثلث لیل قیام کرتا ہے اور دوسرا گیارہ رکعات کے ساتھ ایک گھنٹہ قیام کرتا ہے اور اپنی صلاۃ کو افضل تصور کرتا ہے تو وہ بھی بعید عن الصواب ہے، کیونکہ فرمان نبوی ہے: “أفضل الصلاة طول القنوت” اور “أفضل الصلاة صلاة داود” – ثلث الليل -اب اگر کوئی دونوں کو ایک ساتھ جمع کر لیتا ہے (یعنی ثلث لیل، طول قنوت اور سات، نو، گیارہ یا تیرہ رکعات) تو اس کے افضل ترین ہونے میں شبہہ نہیں ہونا چاہئے. هذا ما تبين لي والله أعلم بالصوابكتبه: عبد البر بن حقيق الله مدنیاستاد حدیث جامعہ اسلامیہ سنابل، دہلی

Posted on Leave a comment

Online Teacher

احباب گرامی قدر! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عرض تحریر اینکہ میں ایک تجربہ کار اور سند یافتہ استاد ہوں، میں مکمل قرآن کا حافظ ہوں۔ میں نے عالمیت و فضیلت ہندوستان میں مکمل کی ہے اور میں کنگ سعود یونیورسٹی ریاض سعودی عرب سے عربی زبان میں ٹیچر ٹریننگ کورس مکمل کیا ہے۔ میرے پاس اسلامیات میں اچھی مہارت، اچھا تجربہ اور اچھا علم ہے اور میں صحیح تلفظ (تجوید) کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت، حدیث، فقہ، تفسیر، اردو، ہندی اور عربی کو ابتدائی سے اعلی درجے تک سکھا سکتا ہوں۔ مجھے اپنے کسی بھی عمر کے طالب علموں کو انتہائی سادہ اور مؤثر طریقے سے پڑھانے کا جذبہ ہے۔ اگر آپ میرے ساتھ سیکھتے ہیں تو براہ کرم مجھ سے واٹس ایپ پر رابطہ کریں یا مجھے (918700890985+) کے ذریعے میسج کریں میں 3 دن کی مفت کلاسز (ڈیمو کلاسز) کروں گا، تاکہ آپ میرے بارے میں فیصلہ کریں۔ شکریہ آپ کا بھائی: عبدالعظیم

Hello dear Friends !Assalaamu Alaikum Wa Rahmatullah I am an experienced and certified teacher, I am Hafiz of complete Quran. I have completed Alim and Fazil course in India and I have completed teacher Training course in Arabic Language from King Saud University Riyadh Saudi Arabia. I have good skills, good experience and good knowledge in Islamiyat and I can teach the Quran with proper pronunciation ( tajweed), Hadees, fiqah, tafseer, Urdu, Hindi & Arabic from beginner to advanced level.I have passion to teach to my students of any age in a very simple and effect way. If you learn with me please contact me on whatsApp or message me through ( +918700890985 ) I will take on 3 days free classes/demo classes, so that you will decide about me.Thank you Abdul Azim

Posted on Leave a comment

روزہ کی حقیقت ،حکمت ،وفوائد اور چند مشہور غلطیاں ، از قلم : محمد محب اللہ بن محمد سیف الدین المحمدی ، سپول ،بہار

، عربی لغت میں روزہ کو ’’الصوم‘‘ کہتے ہیں جو باب صام یصوم وصیاما سے مصدرہے، اس لفظ کا مادہ ص۔ و۔ م اور صوم کا لغوی معنی ہے ”کام سے رُک جانا” کسی جگہ پر ٹھہر جانا۔ کھانے پینے، گفتگو کرنے اور چلنے سے رک جانے کو بھی صوم کہتے ہیں۔ لغوی معنی کے لحاظ سے ”صوم” کا اطلاق صرف روزے پر ہی نہیں ہوتا بلکہ عربی میں کہتے ہیں۔ صامت الریح ہوا تھم گئی۔ صام النھار ظہر کا وقت ہو گیا (کیونکہ اس وقت آفتاب نصف النہار پر رکا ہوتا ہے۔) اس سے پھر ”صامت الشمس” بھی کہا جاتا ہے یعنی سورج نصف النہار پر مرکوز ہے۔ لہٰذا ”صوم الصائم” سے مراد کھانے پینے اور ان تمام امور سے باز آجانا ہے جن سے اسے منع کیا گیا ہو۔ گفتگو سے رک جانے کو بھی ”صوم” ہی کہتے ہیں۔ سورۂ مریم میں ہے:﴿إِنّى نَذَر‌تُ لِلرَّ‌حمـٰنِ صَومًا…٢٦﴾… سورة مريم”(کہ بے شک میں نے خدا کی رضا کی خاطر چپ کا روزہ رکھا ہے)اور ساتھ ہی تشریح بھی کر دی:﴿فَلَن أُكَلِّمَ اليَومَ إِنسِيًّا ﴿٢٦﴾… سورة مريم” (کہ میں آج کسی انسان سے بات نہ کروں گی)قرآن مجید ہی سے ثابت ہے کہ حضرت مریم ؑ کا وہ روزہ کھانے پینے سے رُک جانے کا نہ تھا کیوں کہ اس سے پہلے خود خدا وند کریم کی طرف سے انہیں حکم ہوا تھا:﴿فَكُلى وَاشرَ‌بى﴾ (کھجوریں کھا اور چشمے کا پانی پی، ہاں اگر کوئی آدم زاد آئے تو کہہ دینا میں نے خدا کی رضا کے لئے چپ کا روزہ رکھا ہے۔”عربی میں بعض اوقات ”قائم” کو ”صائم” بھی کہتے ہیں اس لئے کہ وہ اپنی جگہ پر ساکت ہوتا ہے۔ نابغہ کا ایک شعر ”صوم” کے اس لغوی معنی کو واضح کرتا ہے:خَیْلٌ صِيَامٌ وَّ خَيْلٌ غَيْرُ صَائِمَةٍ تَحْتَ الْعَجَاجِ وَخَيْلٌ تَعْلُكُ اللُّجَمَاغبار جنگ كے سایے تلے کچھ گھوڑے ثابت قدم (صائم) ہیں اور کچھ گھوڑے حرکت کرتے ہوئے (غیر صائمہ) اپنی لگاموں کو چبا رہے ہیں،اس ساری بحث سے یہ نتیجہ منتج ہوا کہ صوم کا لغوی معنی ہے ”کام سے رک جانا” خواہ وہ کسی نوعیت کا ہو۔اصطلاح شریعت میں صوم کی تعریف اس طرح کی جاسکتی ہے:’’الامساک عن المفطرات مع اقترانہ النیۃ من طلوع الفجر الی غروب الشمس‘‘ (تفسیر قرطبی (۱/۶۵۰)فتح البیان فی مقاصد القران(۱/۳۶۲)’’یعنی طلوعِ فجر سے لیکر غروبِ آفتاب تک تمام مفطرات سے اس طرح رک جانا کہ (مکمل روزے کی ) نیت شاملِ حال رہے‘‘روزہ کب فرض ہواروزہ ایک ایسی عبادت ہے جو ہر نبی اور اس کی امت پر فرض کی گئی ،کوئی امت روزہ کی فرضیت سے خالی نہیں رہی، اللہ تعالیٰ کا فرمان :{ کَمَاکُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ} (البقرۃ:۱۸۳) } اس کی دلیل ہے۔ امام مجاہد کا قول ہے:’’کتب اللہ عزوجل صوم شھر رمضان علی کل أمۃ‘‘یعنی( اللہ تعالیٰ نے رمضان کا روزہ ہر امت پر فرض کیا تھا۔) (تفسیر قرطبی۱/۶۵۱) اللہ تعالیٰ نے سابقہ تمام امتوں پر روزہ فرض قرار دینے کی خبر ہمیں اس لئے دی تاکہ ہماری نظروں میں اس کی اہمیت اور قدرومنزلت مزید بڑھ جائے،مزید رغبت پیدا ہوجائے ،نیز یہ کہ روزہ آسان لگنے لگے؛کیونکہ کوئی بھی مشکل چیز جب عمومیت اختیار کرجائے تووہ آسان ہوجاتی ہے۔ہمارے روزے کو سابقہ اقوام کے روزے سے تشبیہ دینا باعتباراصلِ وجوب ہے، یعنی جس طرح سابقہ اقوام پر روزہ فرض تھا اسی طرح ہم پر بھی فرض ہے یہ تشبیہ باعتبار کیفیت ِ صوم نہیں ہے؛کیونکہ ہمارے اور سابقہ اقوام کے روزہ کی کیفیت میں فرق تھا، چنانچہ ان کا ر وزہ عشاء کی نماز سے شروع ہوکر غروبِ آفتاب تک جاتا،جبکہ ہمارار وزہ ابتداء فرضیت میں اسی طرح تھا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے آسانی پیدافرماتے ہوئے طلوعِ فجر سے غروبِ آفتاب تک مقرر فرمادیا۔سابقہ اقوام نے اپنے روزہ کے ساتھ اچھا سلوک نہ کیا ،چنانچہ یہودیوں نے رمضان المبارک کی جگہ روزے کیلئے پورے سال کا صرف ایک دن مقرر کرلیا،جو ان کے زعم میں فرعون کے غرق ہونے کا دن تھا،جبکہ عیسائیوں نے جب یہ دیکھا کہ رمضان المبارک تو شدید گرمی کے موسم میں آتا ہے تو انہوں نے قمری مہینہ کی جگہ ایک ایسا شمسی مہینہ تجویز کرلیا جو ہمیشہ موسمِ بہار میں آئے۔قولہ تعالیٰ:{اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ أَرْبَا بًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ}(التوبہ :۳۱)ترجمہ:(ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایاہے) میں یہود ونصاری کی اس قسم کی باطل روش کی تفنید وتردید ہے۔اس لحاظ سے امت محمدیہ بے شمار آفرین اور شاباش کی مستحق ہے کہ جس نے سابقہ اقوام کی روش کے بالکل برعکس روزے کا حق ادا کردیا،اور کسی بھی مقام پر کسی بھی موسم کی شدت یا روزے کی طوالت ان کے آڑے نہ آسکی اور نہ ہی کسی قسم کی رکاوٹ بن سکی (فللّٰہ الحمد والمنۃ)،اُمتِ محمد یہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ر و ز ہ کب فرض ہوا؟اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت پرپیر کے دن ۲ شعبان ۲ھ میں روزہ فرض فرمایا،گویا رسول اللہ کی بعثت کے پندرھویں سال روزے کی فرضیت نازل ہوئی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ ومبارکہ میں نو مرتبہ رمضان کا مہینہ آیا۔روزے کی فرضیت میں اسقدر تاخیر کا سبب بیان کرتے ہوئے علامہ جمال الدین القاسمی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:’’ ولما کان فطم الناس عن مألوفاتھا وشھواتھامن أشق الأموروأصعبھا تأخر فرضہ إلی وسط الاسلام بعد الھجرۃ لما توطنت النفوس علی التوحید والصلاۃ وألفت أوامر القرآن ،فنقلت إلیہ بالتدریج…‘‘(محاسن التأویل۳/۴۱۶) ’’ چونکہ کھانا پینا اور دیگر شہوات کا ترک لوگوں کیلئے انتہائی مشکل اور دشوار امر ہے، لہذا اللہ تعالیٰ نے (ازراہِ شفقت ومحبت ) روزے کی فرضیت کو ہجرت کے بعد تقریباً وسط اسلام تک مؤخر رکھا،چنانچہ لوگوں کے نفوس اور طبائع توحید اور اقا متِ صلاۃ پر پختہ ہوگئے ،اور وہ اوامرِقرآن سے خوب مانوس ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے روزہ کی فرضیت نازل فرمادی،اور اس میں بھی تدریج کا پہلو پسند فرمایا(تاکہ اس عظیم عبادت کی ادائیگی میں کسی کوتاہی کا مظاہرہ نہ ہونے پائے )‘‘( منقول ازکتاب، روزہ حقیقت وثمرات صفحہ نمبر 18 تا 24)روزہ کے حِکَمْ ومقاصدعلماء کرام نے روزہ کی بہت سی حکمتیں بیان فرمائی ہیں،لیکن سب سے بڑی حکمت اورسب سے ارفع وا علیٰ مقصدوہ ہے جس کا اللہ رب العزت نے اپنے مقدس کلام میں ذکر فرمایا ہے:{ یَاأَ یُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَاکُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ} (البقرۃ:۱۸۳) ترجمہ:(اے ایمان والو!تم پرروزے رکھنا فرض کیا گیاجس طرح تم سے پہلے لوگوں پر (صوم)فرض کیاگیاتھاتاکہ تم تقویٰ اختیار کرو)اس آیت میں روزہ کی حکمت یہ بیان فرمائی کہ یہ تقویٰ کا باعث ہے جس کی تفصیل یوں ہے کہ روزہ دوسری تمام عبادات سے بوجوہ منفرد ہے کہ یہ رب اور بندے کے درمیان راز و نیاز کا معاملہ ہے جبکہ دوسری تمام عبادات مثلاً نماز، حج اور قربانی وغیرہ ظاہری عبادات ہیں جو ظاہری حرکات و سکنات سے بے نیاز ہونے کے باعث ریا جیسی بیماری سے جو کہ بڑی بڑی عبادتوں پر پانی پھیر سکتی ہے۔ محفوظ و مامون ہے اس لئے کہ روزہ دار کے روزہ کی حقیقت (کہ وہ روزے سے ہے یا نہیں) رب تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر ایک آدمی وضو کرتے ہوئے تین دفعہ کلی کرتا ہے۔ اس وقت پانی اس کے منہ میں ہوتا ہے۔ وہ چاہے تو اس پانی کا اکثر حصہ اپنے حلق میں اتار سکتا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس کی اس حرکت کو نہیں دیکھ سکتی۔ لیکن ایک چیز اسے پانی کا ایک قطرہ بھی شدید پیاس کے باوجود حلق میں پانی اتارنے سے باز رکھتی ہے اور یہ چیز رب کریم کا خوف ہے جس کا دوسرا نام تقویٰ ہے کہ محض اللہ تعالیٰ کے ڈر سے اپنی خواہش پر اس نے غلبہ پالیا اور یہ تقویٰ (خواہشات پر کنٹرول) انسان کی ساری زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے مثلاً اگر وہ دوکاندار ہے تو میزان میں کمی بیشی کا مرتکب نہ ہو گا اگر کپڑے کا تاجر ہے تو ماپ میں ہیرا پھیری کی خواہش کا گلا گھونٹ دے گا۔ اگر کسی میڈیکل ہال کا مالک ہے تو دواؤں پر ناجائز منافع حاصل کر کے حصولِ زر کی خواہش کا احترام نہ کرے گا اور اگر ڈاکٹر ہے تو پانی میں رنگ ملا کر غریب مریضوں کا خون چوسنے اور اس طرح زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کی خواہش کا حصول اس کے لئے ناممکن ہو گا۔ علیٰ ہذا القیاس روزہ انسان کے نفس کی اس طرح سے تربیت کرے گا کہ ہر لمحہ خوفِ خدا اس کو گناہوں سے باز رکھے گا اوررضا ۓالٰہی کا حصول اس کا مقصود مطلوب ہو گی جو خداوند کریم سے اس کی قربت کا باعث بنے گی،محترم قارئین : جسدِ انسانیت سے مادیت کے طوفان ہر آن اُٹھتے رہتے ہیں اگر ان طوفانوں کے سامنے بند نہ باندھا جائے تو یہ خاکی بدن ہویٰ و ہوس کا مظہر بن کر رہ جائے، خواہشاتِ نفسانی اس قدر سرکش اورغالب ہو جائیں کہ انسان ان پر کنٹرول نہ کر سکے۔ اور شہوات وشبہات کے دام فریب میں پھنس جاۓ ، لہٰذا رب کریم نے ضبطِ نفس اور مادیت کے غلبے سے بچانے کے لئے روزے جیسے عظیم عبادت کا انعام اسے عطا فرمایا تاکہ اس کی روح اور جسم میں توازن برقرار رہے اور نفسِ انسانی مطیع و منقاد ہو کر خدا کی یاد میں مگن رہے۔شیخ عبد اللہ آل بسام نے ’تیسیر العزیز العلام شرح عمدۃ الاحکام‘‘(۱/۴۲۱) میں انتہائی جامعیت کے ساتھ روزہ کی دینی،اجتماعی ،اخلاقی اور صحتِ انسانی کے متعلق کچھ حکمتیں بیان فرمائی ہیں،انہی کے نفیس کلام کا خلاصہ ملاحظہ کیجئے۔روزہ کی بلند ترین حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان عبادت ہے ،چنانچہ روزہ دار غلبہ شہوت کا قلع قمع کرتے ہوئے مکمل خشوع وخضوع کے ساتھ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہے،اور ظاہر ہے کہ نفسِ انسانی جب خوب سیر ہو تو اسے مستی سوجھتی ہے{کَلَّا اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰی۔أَنْ رَّاٰہُ اسْتَغْنٰی } ترجمہ:(سچ مچ انسان تو آپے سے باہر ہوجاتاہے،اس لئے کہ وہ اپنے آپ کو بے پرواہ (یاتونگر) سمجھتا ہے)(العلق:۶،۷)لیکن روزہ رکھ کر انسان جب بھوک اور پیاس کی شدت کی بناء پر اپنے عجز وضعف کو ملاحظہ کرتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ نفس کے کِبر اور بڑائی کی تو کوئی حقیقت نہیں،نتیجۃً وہ اپنے رب کیلئے بھی مسکین ورقیق القلب ہوجائے گا،اور مخلوقات کیلئے بھی نرم دل ۔روزہ کی اجتماعی حکمت یہ ہے کہ پوری خلق ایک ہی وقت میں ایک عبادت پر مجتمع ہوتی ہے ،چنانچہ خواہ کوئی طاقت ور ہویا کمزور،شریف ہو یا وضیع، مالدار ہویافقیر سب نے ایک ساتھ ہی روزہ شروع کرنا ہے اورایک ہی وقت میں افطار کرنا ہے ،سب نے اکٹھے بھوک اور پیاس کی تکلیف کو جھیلنا ہے …یہ چیز قلو ب وارواح میں باہمی ربط، الفت اور محبت پیدا کرنے کا عظیم سبب بن جائے گی،لوگ ایک دوسرے کے ساتھ شفقت ور حمت کا برتاؤ کرینگے،بالخصوص مالدار کہ جنہیں بھوک اور پیاس برداشت کرکے معاشرہ کے غریب،تباہ حال اور پسے ہوئے اپنے بھائیوں کی بھوک اور پیاس کا احساس ہوگا…وہ یہ بات سوچنے پر مجبور ہوگا کہ وہ بھوک اور پیاس جسے اس نے صرف ایک ماہ مشکل سے برداشت کیا ،اس کا غریب بھائی اور اس کا پورا کنبہ پورا سال برداشت کرتا اور جھیلتاہے،اس سے یقینا اس کے دل میں سخاوت کا احساس پیدا ہوگا،دلوں کی تفریق ،عداوتیں اور رنجشیں دور ہونگی،ان کی جگہ محبت اور بھائی چارہ کی فضاء استوار ہوگی،نتیجۃً تمام طبقاتِ انسانی میں وہ سلامتی رائج ہوجائے گی جو دینِ اسلام کو مطلوب ہے ۔روزہ کی اخلاقی وتربوی حکمت یہ ہے کہ صبر وتحمل کا درس دیتا ہے، عزیمت و اراد ہ کو قوت واستحکام بخشتا ہے، مشاکل ومصائب کا حملہ ہوتو خندہ پیشانی سے جھیلنے بلکہ ان کا مقابلہ کرکے انہیں زیر کرنے کی ٹریننگ دیتا ہے۔ روزہ صحتِ انسانی کے تعلق سے بڑی پُر حکمت عبادت ہے ،چنانچہ انسانی معدہ بیماریوں کا گھر ہے اورپرہیز (خلوِمعدہ) تمام دواؤں کی سردار ہے،معدے کو آرام وراحت کا وقفہ چاہئے،کیونکہ بلاناغہ اور مسلسل کھانے پینے کی وجہ سے وہ بُری طرح تھکاوٹ کا شکار ہوجاتا ہے،لہذا اس طویل ترین مشقت کے بعد اسے اس کے آرام کا مکمل حصہ دستیاب ہونا چاہئے تاکہ وہ استراحت کے اس وقفہ میں جسم سے زائد فضلات اور فاسد اخلاط کو جارج کرکے ،نیز جسم میں جمی ہوئی زائد چربی کو پگھلا کر ازسرِ نو ہضمِ طعام کیلئے فعال اور روادواں ہوجائے۔‘‘(انتہیٰ بتغیر یسیر)روزے کے مادی اور روحانی فوائد ،معزز قارئین! اسلامی عبادات میں ظاہری اور باطنی ہر قسم کی طہارت ،نفاست و پاکیزگی کا التزام ہر جگہ موجود ہے۔ نماز اگر آئینہ دل کو مجلّٰی اور مصفٰی کرتی ہے تو وضو جسمانی طہارت اور پاکیزگی کے لئے نماز کی اوّلیں شرط قرار پایا۔ اسی طرح اگر عورت کو نقاب اوڑھنے کا حکم دیا تو ساتھ قید بھی لگائی:﴿وَقُل لِلمُؤمِنـٰتِ يَغضُضنَ مِن أَبصـٰرِ‌هِنَّ…٣١﴾… سورة النورکہ اے رسول ﷺ! مومن عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔اور یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ جس عورت کی نگاہ عصمت و عفت اور فطری حیا سے خالی ہے۔ اس کے لئے اگر لاکھ نقابوں کا اہتمام بھی کر لیا جائے تو وہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا جس کے لئے ”یغضضن من ابصارھن” کی ضرورت پیش آئی۔روزہ بھی اس حکمت سے خالی نہیں۔ روزہ سے جہاں انسان کی باطنی طہارت اور روحانی صحت کا التزام کیا گیا ہے وہاں اس کی جسمانی صحت اور نظامِ انہضام کی خرابیوں کا علاج بھی اس میں موجود ہے۔،پھر یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ کثرت خوری اور وقت بے وقت کھانا معدے کی امراض کا موجب ہیں۔ اس سے جسمانی نشوونما صحیح طریق پر نہیں ہوتی بلکہ غیر متناسب غذا اور کھانے کے غیر متعین اوقات کی بدولت اکثر لوگ لبِ گور پہنچ جاتے ہیں۔ سال بھر کی ان بے قاعدگیوں کو روکنے اور صحت اور تندرستی کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے کے لئے یہ لازم تھا کہ انسانوں کو تیس روز تک پابند کیا جاتا کہ وہ متعینہ وقت پر کھائیں پئیں اور مقررہ وقت کے بعد کھانے پینے سے ہاتھ کھینچ لیں۔ یہ کیسی حکمت ہے کہ عبادات کے ساتھ ساتھ انسان جسمانی صحت بھی حاصل کرتا ہے اور روح کی بالیدگیوں کے ساتھ ساتھ اس کی جسمانی صحت بتدریج کمال حاصل کرتی جاتی ہے۔ تجربہ شاہد ہے کہ رمضان میں اکثر لوگوں کی جسمانی بیماریاں محض کھانے کے اوقات کی پابندی کی بنا پر خود بخود دور ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ بڑے بڑے مفسرین اور ائمہ مجتہدین نے روزے کی دوسری حکمتوں کے ضمن میں حکمتِ صحتِ جسمانی کا ذکر بھی کیا ہے۔بسیار خوری سے مادیت کا غلبہ بڑھتا ہے اور شہوانی جذبات حملہ آور ہوتے ہیں۔ روزے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ دن بھر بھوکے پیاسے رہنے سے جسمانی اعضاء میں کچھ کمزوری آجاتی ہے جس سے شہوانی جذبات کے حملے ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔ بھوک اور پیاس جنسی جذبات کی برانگیخت کو کچل دیتے ہیں۔رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے:”الصوم جنة” کہ روزہ ڈھال ہے۔اس سے مراد صرف یہی نہیں کہ یہ صرف دوزخ کی آگ سے ڈھال ہے بلکہ اس سے یہ بھی مراد ہے کہ روزہ جنسی ہیجان نیز مادی او روحانی ہر قسم کی بیماریوں کے لئے ڈھال ہے اس طرح کہ بھوک پیاس اس کی جنسی خواہشات کو دبا کر اسے خداوند کریم کی طرف راغب کرتے ہیں۔ بخاری اور مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے:«یا معشر الشباب من استطاع منكم الباءة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحفظ للفرج ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإن له وجاء»کہ اے نوجوانو! تم میں سے جسے نکاح کرنے کی توفیق ہو اسے چاہئے کہ ضرور نکاح کرے، کیونکہ نکاح شرم و حیا اور شرمگاہ کی حفاظت کے لئے سب سے زیادہ مفید ہے اور جس نوجوان کو نکاح کی استطاعت نہ ہو اسے لازم ہے کہ وہ روزے رکھے کیونکہ روزہ جنسی ہیجان کا تدارک کرتا ہے۔تین طرح کے روزہ دار ، علامہ ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ نے روزے کے تین مراتب بیان فرمائے ہیں:(۱) عام لوگوں کا روزہ ۔(۲) خاص لوگوں کا روزہ۔(۳) خاص الخاص لوگوںکا روزہ۔عام لوگوں کا روزہ صرف پیٹ اور شرمگاہ کی خواہشات اور شہوات سے بچاؤ کا نام ہے ،خاص لوگوں کا روزہ پیٹ اور شرمگاہ کی خواہشات وشہوات سے بچاؤ کے ساتھ ساتھ ،نگاہ،زبان ہاتھ پاؤں ،کان اور دیگر اعضاء کو ہر قسم کے گناہ سے محفوط رکھنے کا نام ہے۔جبکہ خاص الخاص لوگوں کا روزہ یہ ہے کہ مذکورہ تمام امور کو ملحوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے قلب کو بھی اس قدر محفوظ بنالیں کہ اس میں ایسے افکار وخیالات کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے جو بندے کو اللہ تعالیٰ سے غافل کرنے یا دور کرنے کا سبب بن جائیں۔اب ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے آپ کو چیک کریں صرف دوسرے پر تبصرہ ہی نہ کرۓ کبھی کبھی اپنے آپ کا بھی حساب کتاب کیجئے کہ آپ ان مذکورہ بالا قسموں میں سے کس قسم میں آتے ہیں ، روزہ اور ہمارا طرزِ عمل، رمضان المبارک کا روزہ جن مقاصد حسنہ کی تحصیل کے لیے فرض کیاگیا تھا، ہمارے سلف صالحین نے روزہ کے آداب وواجبات ،مستحبات کی رعایت کرکے ان مقاصد کو پورے طور پر حاصل کیا۔ وہ حضرات دن کو روزہ رکھتے تھے اور راتوں کو ذکر وفکر اور نماز و تلاوت ،قرآن کی تفسیر وتشریح کو سمجھنے میں مشغول رہتے تھے اور رمضان المبارک کے ایک ایک لمحہ کو اللہ کی عبادت میں گذارتے تھے، وہ اپنی زبانوں کو بیہودہ گوئی سے بند رکھتے تھے اور کانوں کو لغو اور فحش باتوں کے سننے سے محفوظ رکھتے تھے، ان کی آنکھیں حرام چیزوں کی طرف قطعاً نہیں اٹھتی تھیں۔ اس طرح اُن کے تمام اعضاء روزہ سے رہتے تھے؛ لیکن آج ہمارا یہ حال ہے کہ ہم اس مبارک مہینہ کو بھی دیگر مہینوں کی طرح ضائع کردیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے روزہ کو اس لیے فرض کیاتھا کہ اس کے ذریعہ روح و قلب کو فائدہ پہنچے؛ ایمان میں تازگی آۓ ، محاسبہ کرنے کی عادت بناۓ ، مگر ہم نے روزہ کو پیٹ اور معدہ کو پُر کرنے کا مہینہ بنالیا۔ اللہ نے اُسے حلم و صبر کے حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا تھا؛ مگر ہم نے اُسے غیض وغضب اور غم وغصّہ کا مہینہ بنالیا ، اللہ تعالیٰ نے اُسے سکینت و وقار کا مہینہ بنایا تھا؛ مگر ہم نے اُسے گالی گلوج اور لڑائی جھگڑے سرپھٹول کا مہینہ بنالیا، اللہ تعالیٰ نے روزہ کو اس لیے فرض کیا تھا کہ ہماری عادتوں میں تبدیلی آئے؛ مگر ہم نے سوائے کھانوں کے اوقات میں تبدیلی پیدا کرنے کے کچھ نہیں کیا۔ع ببیں تفاوتِ رہ از کجاست تا بہ کجا، رمضان کے ایام میں ہم سے ہونے والی چند مشہور غلطیاں ، 1۔ افطار وسحور ، مأکولات ومشروبات کی خرید وفروخت میں حددرجہ مبالغہ آمیزی ! جب بھی رمضان کی آمد آمد ہوتی ہے بہتیرۓ مسلمان اشیاء خورد و نوش ،سحری ،افطارکے سامان دسترخوان کو بھانت بھانت کے مأکولات ومشروبات ،حلویات ، کھٹے میٹھے لذت آمیز چیزوں سے سجانے کی فکر لاحق ہوجاتی ہے ، ہزاروں کی شوپنگ ہوتی ہے ، بلکہ اسراف و تبذیر کا واضح عملی نمونہ موسم رمضان میں نظر آتا ہے ، آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ افطار وسحری کے لئے جتنے اہتمام سے مختلف کھانے پینے کی چیزیں زیب دسترخوان ہوتے ہیں اتنے میں تو فقراء وصعالیک کی ایک بڑی جماعت آسودہ ہوسکتی ہے ، 2 ۔ سحری تناول کرنے میں بعض لوگ افراط و تفریط کے شکار ہیں ، یعنی آدھی رات کو ہی کچھ لوگ کھاپی کر سوجاتے ہیں اور کچھ لوگ آذان کے ختم ہونے تک کھاتے پیتے رہتے ہیں ، 3 ۔ افطاری کرنے میں تاخیر،4 ۔ آذان فجر کے دوران بھی کھاتے پیتے رہنا ،5 ۔ افطار کے وقت دعاء نہ پڑھنا ، 6 ۔ افطار تناول کرنے میں مشغول رہنا اور آذان کاجواب نہ دینا ، 7 ۔ از راہ احتیاط طلوع فجر سے قبل ہی کھانا پینا چھوڑ دینا ، 8 ۔ نصف رات کو ہی سحری کھاکے سوجانا ،9۔ بھول کر حالت روزہ میں کھانے پینے والے کو دیکھنے والے کا نہ ٹوکنا یہاں تک کہ پورا ختم کردۓ ، 10۔ عورتوں کو کھان پان پکانے اور مطبخ کے کام میں ہی مشغول رکھنا ، یا درکھیں کہ رمضان کے اعمال و عبادات مثلاً: نماز، روزہ،صدقات و خیرات، تراویح، اذکار، تلاوت قرآن مجید، دعا و مناجات وغیرہ جیسے مردوں کے لیے ہیں اسی طرح عورتوں کے لیے بھی ہیں، ان اعمال کی ادائیگی پر جس طرح مردوں کو اجر و ثواب ملتا ہے اسی طرح خواتین کو بھی ثواب حاصل ہوتا ہے،11 ۔ مردوعورتوں کا صلاۃ مغرب کی ادائیگی میں تاخیر کرنا ، افطاری کے بعد سو جانا اور تراویح کی نماز نہ پڑھنا ، 12 ۔ صلاۃ فجر کی ادائیگی میں غفلت و کسلمندی سے کام لینا ، 13۔ رمضان کے ایام میں پورا دن سوتے رہنا ، 14۔ ماہ رمضان کو چھٹی کے ایام اور سیر وتفریح کے لمحات سمجھ کر گھومنے پھرنے اور موج مستی میں گزار دینا ، 15۔ رمضان کے روزے کو بوجھ سمجھنا ، اور طرح طرح کی باتیں بنانا ، مثلاً اتنا لمبا دن ، مختصر رات ،گرمی اپنے شباب پر ، تیس اونتیس دن تک ۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ، 16 ۔ ماہ رمضان میں نوجوانوں کا موبائل انٹرنیٹ و شوسل میڈیا کا حد سے زیادہ استعمال کرنا کہ وقت نہیں گزررہا ہے ، یہاں تک کہ بعض نوجوانوں کا تراویح چھوڑ کر آئی پی ایل میچ دیکھنا ، یا پب جی ولوڈو گیمس وغیرہ کھیلنا ، 17 ۔ شب قدر میں رات رات بھر وعظ کرنا ،وسننا ، یا رات نہ گزرے تو پارٹی وپکنک میں وقت ضائع کرنا ، 18 ۔ روزہ کی حالت میں بھی منشیات سگریٹ ،کھینی ،گُل وغیرہ کا استعمال کرنا ، محترم قارئین : روزہ ایک تربیتی مدرسہ ہے ، روزہ تقویٰ کا سبق دیتا ہے ، روزہ شہوات وشبہات کے فتنے سے بچنے کا راستہ بتاتا ہے ، روزہ سکھاتا ہے کہ ماضی کے غلطیوں کو نہ دہرایا جاۓ ، اور مستقبل حصول علم وعمل، دعوت وارشاد اور خدمت دین میں گزرے ،روزہ کا پیغام ہے کہ رذیل وخسیس حرکتوں سے اپنے آپ کو کیسے محفوظ رکھا جائے ،زندگی کیسی گذاری جاۓ، دنیا میں کیسے رہا جائے ،خواہشات پر قابو کیسے پایا جاۓ مچلتے نفس کو کیسے منایا جاۓ ۔ روزہ ایک مسلسل عبادت ہے اور روزہ دار سحری سے غروب آفتاب تک کا سارا وقت خدا کی عبادت میں بسر کرتا ہے۔ ایک نماز پڑھ لینے کے بعد ممکن ہے۔ آپ دوسری نماز تک یاد خدا سے غافل ہو جائیں۔ کاروبارِ حیات میں غفلت انسان کو خدا سے دور رکھتا ہے لیکن جب اس کے دل میں یہ احساس جاگ اُٹھتا ہے کہ وہ خدا کی خوشنودی کی خاطر بھوک پیاس کو برداشت کرنے کی پابندی قبول کر چکا ہے تو وہ اس کوشش میں رہتا ہے کہ اس کا کوئی بھی لمحہ یادِ خدا ،ذکر واوراد اور خیر و بھلائی سے غفلت میں بسر نہ ہو۔ چہ خوب ؎صرفِ عصیاں ہوا وہ لحظۂ عمرجو تری یاد میں بسر نہ ہوااللہ تعالیٰ ہمارے ظاہر وباطن کو پاکیزہ بناۓ ،تقوی کی زندگی نصیب کرۓ ،علم وعمل کی حیات دۓ ، ماہ رمضان کے خیر وبرکات کو سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ،

Posted on Leave a comment

پندرہ شعبان کی رات میں کی جانے والی بدعات : شیخ عبد الخبیر سلفی

#پندر اس رات میں بہت ساری بدعات نکال لی گئی ہیں ان میں سے بعض کو مندرجہ ذیل سطور میں بیان کیا جا رہا ہے(1) پندرہ شعبان کو برات کی رات سمجھنا اس رات کے متعلق مسلمانوں میں بعض ضعیف اور موضوع روایات کی بنیاد پر عام رجحان یہ پایا جاتا ہے کہ یہ بخشش اور جہنم سے آزادی کی رات ہے اس لئے بڑے اہتمام کے ساتھ جوق در جوق شب بیداری کی جاتی ہے اور ہجوم کی شکل میں قبرستانوں کی زیارت کی جاتی ہے، بڑے زور و شور کے ساتھ گھروں اور قبرستانوں میں چراغاں کیا جاتا ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح احادیث میں صرف اتنا ہے کہ اللہ تعالی اس رات میں مشرک اور کینہ توز کے علاوہ سب کو معاف کر دیتا ہے چنانچہ حدیث میں ہے عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ رضی اللہ عنہ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” إِنَّ اللَّهَ لَيَطَّلِعُ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَيَغْفِرُ لِجَمِيعِ خَلْقِهِ إِلَّا لِمُشْرِكٍ أَوْ مُشَاحِنٍ ” (إبن ماجہ :1390)ترجمہ: حضرت ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی نصف شعبان کی رات جلوہ افروز ہوتا ہے پس اپنی ساری مخلوق کو بخش دیتا ہے سوائے مشرک اور کینہ پرور کےاس روایت میں زیادہ سے زیادہ اس رات اللہ کی عام بخشش کا ذکر ہے جو اس میں کی جانے والی کسی خاص عبادت سے مشروط نہیں ہے اور نا ہی اس بنیاد پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح روایات کے مطابق کبھی بھی خصوصیت کے ساتھ رت جگا کیا اور نا ہی صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس کی ترغیب دلائی شیطان کی چالیں بھی بڑی عجیب ہیں اس نے اس رات میں جس کی عبادت کا ثبوت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت بھی نہیں مصنوعی عبادتوں میں لگا کر مسلمانوں کو ان راتوں سے غافل کر دیا جن میں اللہ اپنے بندے کو آواز لگا لگا کر عبادت کے لئے پکارتا ہے حدیث میں ہے عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ، يَقُولُ : مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ ؟ مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ ؟ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ ؟ “حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ ہمارا رب آسمان دنیا پر ہر رات نزول فرماتا ہے جب آخری تہائی رات باقی رہ جاتی ہے اور اعلان کرتا ہے، ہے کوئی مجھے پکارنے والا میں اس کی پکار سنوں؟ ہے کوئی مجھ سے سوال کرنے والا میں اس کو عطا کروں؟ ہے کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اس کو بخش دوں؟ چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ آج کا جاہل اور بدعت کا دلدادہ مسلمان اسی رات کی عبادت کو اپنے لئے کافی سمجھتا ہے حتی کہ اس کو فرائض کی بھی پرواہ نہیں ہے جہاں تک قبرستان کی زیارت کی بات ہے تو اس رات میں خصوصی زیارت پر دلالت کرنے والی روایات درجہ صحت کو نہیں پہنچتی اور نا اس لائق کہ ہیں کہ ان سے دلیل پکڑی جائے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلا شعبان کی راتوں کی قید کے حسب موقع قبرستان کی زیارت کو جاتے تھے اور ہمیں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی إتباع میں زیارت قبور کرنا چاہیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں ” كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – كُلَّمَا كَانَ لَيْلَتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَخْرُجُ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ إِلَى الْبَقِيعِ، فَيَقُولُ : ” السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَأَتَاكُمْ مَا تُوعَدُونَ غَدًا مُؤَجَّلُونَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَهْلِ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ ” (مسلم :974) یعنی جب کبھی نبی صلی کی باری ان کے یہاں ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری پہر میں جنت البقیع چلے جاتے، پس وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے اور کہتے” السلام علیکم دار قوم مؤمنين…….، اس حدیث سے معلوم ہو رہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کے وقت زیارتِ قبور کی عام عادت تھی اس میں شعبان کی کوئی خصوصیت نہیں ہے یہاں بھی شیطان کی ہوشیاری ملاحظہ فرمائیں کہ اس نے اہل بدعت کو کس طرح ہر رات کی سنت نبی سے ثابت شدہ زیارت قبور اور نفع بخش دعا سے محروم کردیا اور صرف ایک رات کی بدعات و خرافات سے لبریز مزعومہ عبادت میں مست کر دیا ہے جو سنت نبی کے خلاف ہونے کے باعث سراسر خسارے کا سبب ہے! فانا للہ و انا الیہ راجعون۔۔۔۔۔۔۔۔باقی آئندہ

Posted on Leave a comment

گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا: محمد محب الله بن محمد سيف الدين المحمدی

الحمدلله والصلاة والسلام على نبيه ومصطفاه محمد وعلى آله وأصحابه وأتباعه ومن والاه ، اللهم أجرنا في مصيبتنا ،واخلف لنا خيرا منها ،
رحلت يا شيخنا (نیازالمدنی) والأرض مجدبة ،
وكنت بالعلم أبراقا وأمطارا ،
اس كارگاه ہستي ميں انسانوں کی آمد ورفت کا سلسلہ ابتداء ہی سے جاری ہے، چمنستان دہر کا ہر پھول اپنی جداگانہ حیثیت اور شناخت کے ساتھ آتا اور چلاجاتا ہے، ہمارے شیخ نیاز احمد طیب پوری مدنی رحمۃ اللہ علیہ کو اس عالم خاک وبو میں تقريبًا 60 سال کی فرصت حیات ملی
7,1,1963ءمیں انھوں نے اس جہان ناسوت میں آنکھ کھولی ،
ء 3,10,2022 میں آنکھوموند لی ، اور اپنے پیچھے سوگواروں کا ایک انبوہ چھوڑ گئے ، آپ تو چلے گئے لیکن آپ کی یادیں ، ذکریات ، جہود ،مساعی ،مآثر ،مناشط ،و خدمات کا چمن لہہ لہا رہا ہے ،
ما مات من ذكره باقٍ وسيرته
في كل قلب لها فيض وأنوار ،
یوں تو دنیا میں آنے والے ہر انسان کو ایک نہ ایک دن جاناہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن علم و ادب کا نفیس ذوق رکھنے والی ایک ایسی بالغ نظر ، روشن دماغ اور پہلو دار شخصیت کی وفات جس کا وجود سائبان کی طرح ہو، جس کی حیثیت گویا شمس و قمر کے مانند ہو کہ اس کی ضیا پاشیوں سے ایک دنیا منور ہو، اور جس نے ایک لمبے عرصے تک تعلیم وتدریس کی بساط بچھائی رکھی ہو اور علم و عرفان کی قندیلیں روشن کی ہوں، اور دین حق کا صحیح شعور،منہج سلف اور اسلام کی حقانیت عام کرنے میں اپنی پوری طاقت نچوڑ دی ہو، ایسے با فیض معلم ومربی کی وفات انتہائی دکھ وافسوس اور رنج وغم کی بات ہے، اور انسانی تاریخ کا بہت بڑا نقصان ہے،
گویا شاعر کی زبانی ،
سورج کی موت چاند ستاروں کی موت ہے
وہ ایک کی نہیں ہے، ہزاروں کی موت ہے
أيها الراحل المحبوب معذرة
اذا طغي من بحار الحزن تيار ،
شیخ سے پہلا تعارف :
بات 2016ء کی ہے جب میرا داخلہ جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں میں ہوا ، ایک دن شام میں مسجد عائشۃ الدعیج میں شیخ نیاز رحمہ اللہ سے میرا علیک سلیک ہوا ، اور یہ پہلی بالمشافہ ملاقات ہے شیخ سے میری ، یوں تو شیخ کے کئی مضامین اور اداریہ صوت الحق والبلاغ میں پڑھ چکا تھا ، غایبانہ عقیدت تو مدت مدید سے تھی ،
اس ملاقات نے عقیدت ومحبت کو دوبالا کردیا ، اتنی اپنائیت ،محبت، وتپاک سے ملے کہ میں رام ہوگیا ،
جامعہ پہنچنے کے چند دنوں بعد ہی شیخ کا پہلی دفعہ خطبۂ جمعہ سنا ، خطبہ اتنا پرتأثیر تھا کہ ابھی تک اس خطبے کے بعض اہم نکات ذہن کے گوشے میں محفوظ ہے ، شیخ کا موضوع تھا ” انسانی زندگی میں گناہوں کے اثرات ” میں نے دیکھا کہ بہت سارے طلاب شیخ کے خطاب کو اپنی ڈائری میں نوٹ کررہے ہیں ،
یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار ورسن کہاں ،
شیخ رحمہ اللہ کی اکثر گھنٹیاں کلیہ عائشہ میں تھیں ،تاہم ایک دو گھنٹی غالباً مسلم شریف وغیرہ آپ کلیہ کے طلباء کو پڑھاتے تھے ،
شیخ سے میں نے بھی استفادہ کی کوشش کی تھی بعض دفعہ عصر کی نماز کے بعد جب شیخ مسجد سے نکلتے تو میں آپ کے پیچھے لگ جاتا درس کے متعلق یا خارج درس کے سوالات کرتا اور شیخ سے مستفید ہوتے رہتا یہاں تک کہ آپ فرینہ منزل تک پہنچ جاتے ، کئی دفعہ شیخ نے مجھے اپنے گھر اور لائبرری میں بلایا ، اور بعض کتابیں بھی دکھائی ،
شیخ دعوتی مزاج کے تھے ، ملت کادرد وتڑپ تھا ، آپ مسلمانوں کی تعلیمی پستی وزبوں حالی کو دیکھکر کافی بے چین رہتے تھے ، نوجوانوں کے بگڑتے ہوئے حالات اور سماج ومعاشرے کی گندی سیاست واوچھی حرکت سے آپ کافی غمگین رہتے تھے ، شیخ نے اس طرح کے کئی واقعہ کا ذکر کیا ہے خوف طوالت کی بنا پر یہاں بیان نہیں کیا جا سکتا،
شیخ رحمہ اللہ نصیحت کیا کرتے تھے کہ مکتب کی تعلیم ٹھوس دیا جائے، کمیت سے زیادہ کیفیت پر توجہ دیا جائے، وغیرہ وغیرہ،
کرونا لاکڈاؤن سے پہلے کی بات ہے جب والد محترم نے مجلہ نواۓ ابوعبیدہ نکالنے کا فیصلہ کیا تو میں نے شیخ سے اس کا تذکرہ کیا ،چنانچہ شیخ نے کافی مسرت کا اظہار فرمایا اور ایک مضمون بھی اس نومولود مجلۂ کے لئے قلمبند کیا اور تہنئت وتبریک کے ایک خط بھی لکھے ، شیخ رحمہ اللہ ہم طلبہ کو مطالعہ کرنے پر ابھارتے تھے ، لکھنے( مضمون نگاری، تخلیص نگاری وغیرہ )، کی تلقین وتاکید کرتے تھے، آپ اپنے منفرد ونرالے انداز میں کہا کرتے تھے “لکھوں لکھنا لکھنے سے آتا ہے ” لکھنا سیکھو، چھپنا نہیں ” پڑھو پڑھنا پڑھنے سے آتا ہے “
شیخ طلباء کو اکثر کہا کرتے تھے کہ لایبریری جایا کرو ، مطالعہ کرو،اور سکون سے کروں ،اور اپنے ساتھ ایک ڈائری ہمیشہ رکھو ، بہت سارے طلباء سوچتے ہیں مطالعہ تو کرتے ہیں لیکن ذہن میں کچھ باقی نہیں رہتا تو معاملہ ایسا نہیں ہے ،بلکہ دماغ تو امانت دار چور ہے ،
شیخ نے مجھے ایک اہم کتاب ہدیہ کیا ہے ” بچے کیوں بگڑتے ہیں ” کہتے تھے ،اس سے اہم اہم نکات تلاش کرکے تم لوگ خطبہ میں بیان کرنا ، اس کا افادہ عام کرنا ،اسی طرح شیخ محترم نے اپنی تالیف کردہ ایک کتاب بزبان ہندی کے 15 نسخے ہدیہ دیئے ،اور کہا کہ اپنے ارد گرد کے غیر مسلم بھائی کو بعض نسخے دینا تاکہ وہ اسلام کا مطالعہ کرۓ، اور عنف وتشدد ختم ہو اور اللہ نے اگر توفیق دیا تو وہ اپنی مرضی سے دامن اسلام میں بھی پناہ لیں گے (ان شاءاللہ )
لہٰذا میں نے شیخ کی نصیحت پر عمل کیا اور اپنے بعض ہندو اساتذہ کو وہ کتابیں دی ،
شیخ رحمہ اللہ نے ایک دفعہ فرمایا کہ لوگ تعبیر کے فقیر ہوتے ہیں ، ایک دفعہ میں اپنے ہی قریبی رشتہ دار کی وفات پر اس کا گھر گیا ہوا تھا ، تو لوگوں کو دیکھ رہا ہوں اس مصیبت عظمی میں حال چال پوچھ رہے ہیں ،اور کیا خیریت ہے ؟ طبیعت پانی سب ٹھیک ہے نا ؟ بتائیے مصیبت ،رنج وملال ،غم واندوہ کا پہاڑ ہے ، ایسے موقعہ پر اس طرح کے جملے واقعی تکلیف دہ ہوتے ہیں ،
شیخ رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ مزاحا بتایا کہ ، بریلوی ودیوبندی ایک مٹر کے دو دانے ہیں ،
اسی طرح ایک دفعہ بتارہے تھے کہ بعض منکرین حدیث سے جب ہم نے بات کیا تو پتہ چلاکہ سب جاہل ہیں ،ان میں سے کئی ایک تو خیاط ہیں ،کپڑا وغیرہ سلتے ہیں ۔
وغیرہ وغیرہ ،
شیخ کے اوصاف :
هم الرجال اذا ما جئت تمدحهم
سمت على الحرف تيجان وأزهار ،
شیخ رحمہ اللہ ریاء ونمود سے دور رہتے ، صاف وشفاف سینہ ، بغض وحسد سے دور ،مصقل ومصفی دل ، فرط ذکاوت ،أخاذ ذہن ،قوی حافظہ ،مضبوظ ذاکرہ ، اور ایک زندہ دل شگفتہ مزاج ،مرنجا مرنج انسان تھے ،
شیخ کی دوممتاز خوبی ، جسے میں نے شیخ کی زندگی میں خاصکر دیکھا ،
1 ۔ مولانا مرحوم ایک ظریف انسان تھے ، بسا اوقات لطیف سا مذاق بھی کرلیا کرتے تھے ، ایک مرتبہ شیخ ہمارے بزم صحافت کی صدارت کررہے تھے ، طلباء کرام اپنا مقالہ پیش کررہے تھے ،اسی اثناء میں ایک ساتھی نے مطالعہ کی اہمیت پر مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے بعض اسلاف ایسے بھی گزرۓ ہیں جنھوں نے زندگی میں تین دن ہی مطالعہ نہ کرپائے تھے ، ان میں سے ایک دن وہ رات جسمیں آپ ازدواجی زندگی سے منسلک ہوئے تھے ، یعنی شب زفاف ، تو شیخ نے مسکراتے ہوئے صدارتی خطاب میں کہا کہ دیکھو تم لوگ ایسا نہ کرنا ، ورنہ قوی اندیشہ ہے بھاگ جاۓ گی ، پھر شیخ نے مطالعہ کے آداب اصول وضوابط پر مفصل و جامع خطاب کیا اور ہم سب محظوظ ہوتے رہے ،
2 ۔ شیخ رحمہ اللہ ہمت افزائی میں بھی بڑۓ فراخ دل تھے ، کسی نئے لکھنے والے ،پڑھائی میں محنت کرنے والے ،اچھے نمبرات لانے والے ،یاکسی کے اندر کوئی بھی اچھی خوبی ہوتی تو آپ جمکر داد دیتے ،تشجیع وتحفیز کرتے ، اور نیک مشوروں سے نوازتے ، ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازتے ، مزید جد وجہد کدکاوش کرنے کو کہتے اور باکمال دیکھنے کی تمنا کرتے تھے ،
گویا آپ زبان حال سے یہ کہہ رہے ہوتے کہ اڑو اڑتے جاؤں اور آسمان کو پہنچ جاو ،سورج کو چھو لو ،
من كان فوق محل الشمس موضعه
فليس يرفعه شئ ولا يضع ،
ان اوصاف کے علاوہ بہت ساری خوبیاں تھیں فقید رحمہ اللہ میں مثلاً، زبان میں مٹھاس اور حلاوت تھی ، قلم میں روانی اور سنجیدہ بیانی تھی ، نقد ونظر میں ژرف نگاہی ،تنقید میں سلامت روی تھی ،غرض کہ ان کی زندگی کے کسی گوشہ میں بھی ہنگامہ آرائی نہ ،شور وشر ،تصنع وتزخرف ،تکلف اور بناوٹ نہ تھی،وغیرہ وغیرہ ،
اس کے اوصاف حمیدہ اور بھی تو ہیں بہت
ذات میں اس کی چمکتے ہیں وہ جیسے کہکشاں
جنت الفردوس میں اس کے مراتب ہوں بلند
مہرباں اس پر رہے ہر آں خداۓ مہرباں ،
آمین ،
ہجوم اشغال :
شيخ نے اپنی زندگی کا ایک ایک حصہ کام میں لگایا ، درس وتدریس ،دعوت وتبلیغ ، بحث وتحقیق ،تصنیف وتالیف ،خطابت وصحافت ، وغیرہ میں مشغوف ومصروف رہے ، آپ کے استغلال وقت کا اندازہ کیجئے کہ آپ سفر میں بھی پڑھتے لکھتے رہتے تھے، ہندی زبان میں بخاری کی شرح جو آپ نے لکھا تو آپ بتارہے تھے کہ ہم نے سفر میں بھی اس پر کام کیا ہے ، شیخ قلم کے دھنی تھے ، بہت شستہ شگفتہ لکھتے ، چھوٹے چھوٹے جملے لکھتے ،اور ایسا لکھتے کہ بس پڑھتے جائیے اکتاہٹ آپ کی کسی تحریر سے نہیں ہوتی ہے ،آپ کی تحریرحشو وزوائد واطناب سے پاک ہوتی ، جدت وابتکار آپ کی نمایاں خوبیوں میں سے ہے،اس کےثبوت کیلئے ،آپ کا وہ علمی و قلمی سرمایہ ہے جو آپ نے اپنے پیچھے چھوڑۓ ہیں ،
گویا ،
میرۓقلم نے مذاق حیات بدلا ہے
بلندیوں پہ اڑا ہوں ،سما سے کھیلا ہوں ،
قارئین کی طرف سے یہ صدا کہ ،
تشنگی جم گئی پتھر کی طرح ہونٹوں پر
ڈوب کر بھی تیرے دریا سے پیاسا نکلا ،
ہمارے شیخ مختلف پریشانیوں اور ہجوم اشغال کے باوجود سارے بکھیڑوں اور ذمہ داریوں سے فراغت کرکے اپنی شخصیت کو باغ وبہار بنا لیا کرتے تھے ،لکھتے پڑھتے رہتے تھے ، محفل میں ہیں تو بے تکلف ہیں ،باغ وبہار بنے ہیں ،خطابت کے منبر اور اسٹیج پر ہیں تو سامعین پر حکمراں ہیں ، شگفتگی ٹھہراؤ تو شیخ کا خاص اسٹائل تھا ،
اللہ تعالیٰ نے شیخ رحمہ اللہ کو زبان وقلم کا مضبوط ملکہ دیا تھا ،بولتے کیا تھے موتی رولتے تھے ، اور سننے والے سردھنتے تھے ،اردو زبان ہو یا عربی، ایسے جاذب و دل کش انداز اور دل پذیر و پرتاثیر اسلوب میں لکھتے تھے کہ اس کا اثر پڑھنے والے اپنے دل پر محسوس کرتے تھے، اور یہ کہنے پر مجبور ہوتے تھے:
بے سبب دل نہیں کھنچتا تری باتوں کی طرف
کچھ نہ کچھ بات محرر! تری تحریر میں ہے،
معزز قارئین : یہ چند سطوریاد ماضی کے چند حسین لمحات سے مقتبس ہیں،باتیں بہت ہیں لیکن اتنے ہی پر اکتفاء کرتا ہوں ،
ع۔ سفینہ چاہئیے اس بحر بیکراں کیلئے ،
اخیر میں یہ وضاحت ضرور کرنا چاہتا ہوں کہ ،شیخ ایک عظیم شخصیت کے مالک تھے ، بہت عظیم تھے ،لیکن بشر ہی تھے خطاء وچوک بشر سے ہی ہوتا ہے ، کمال تو بس رب تعالیٰ کی خصوصیت ہے ،دعاء ہے کہ مولاۓ کریم شیخ کی خدمات کو قبول فرمائے ، اور ذلات کو معاف فرمائے ، جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے ،آمین یارب العالمین
ازقلم : محمد محب الله بن محمد سيف الدين المحمدی

Posted on Leave a comment

جامعہ صفیہ الاسلامیہ پربتی پور ، مرشد آباد ، مغربی بنگال

. جامعہ صفیہ الاسلامیہ کا افتتاحی پروگرام

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️
✒️ مفیض الدین بخاری

مؤرخہ 8 جنوری 2023ء بروز اتوار بوقت صبح ساڑھے نو بجے عالیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے زیر اہتمام چلنے والا ادارہ جامعہ صفیہ الاسلامیہ پربتی پور، کاندی، مرشد آباد، مغربی بنگال کا افتتاحی پروگرام نہایت ہی تزک و احتشام کے ساتھ منعقد ہوا۔ وقتِ مقررہ پر پروگرام کا آغاز فضیلۃ الشیخ حافظ حیات اللہ حفظہ اللہ کی تلاوت کلام پاک سے ہوا اور فضیلۃ الشیخ خوشبو الرحمن حفظہ اللہ نے چند اشعار کے ذریعہ شان رسالت میں گلہائے عقیدت پیش کیے بعدہ عالیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے روح رواں فضیلۃ الشیخ انعام الحق مدنی حفظہ اللہ نے استقبالیہ کلمات پیش کیے اور ادارہ کی تاسیس کے عزائم و مقاصد کو تفصیل کے ساتھ بیان کیے۔
اس افتتاحی پروگرام میں بحیثیت مہمان خصوصی فضیلۃ الشیخ شبیر احمد مدنی حفظہ اللہ اور راقم الحروف مدعو تھے، شیخ شبیر احمد مدنی حفظہ اللہ نے تعلیم نسواں کی اہمیت کی خوب وضاحت کی اور اس کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ والدین میں باپ خود تعلیم یافتہ ہو سکتا ہے لیکن ماں ایک قوم کو تعلیم و تربیت سے آراستہ و پیراستہ کر سکتی ہے اس لیے اپنی بچیوں کو تعلیم دے کر اپنی قوم کو علم سے منور کرنے والا بنیں۔ اور راقم الحروف نے سماج و معاشرہ کے عوام و خواص سے ان کی ان ذمہ داریوں کا احساس دلایا جو ان پر لابدی ہیں چنانچہ اس ضمن میں بتایا گیا کہ اولاد کے مابین فکری عدم توازن یعنی صرف بچے کو تعلیم کے لیے آگے بڑھانا اور اس کے لیے مختلف النوع پریشانیاں اٹھانا اور بچیوں کو تعلیم سے محروم کرنا، ان کے حق میں کوتاہی سے کام لینا اور اس کے مستقبل کی بلندی کے لیے خصوصی توجہات ‌مبذول نہ کرنا غیر منصفانہ عمل ہے۔
پھر پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے قرب و جوار و دور دراز علاقوں سے تشریف فرما مہمانان عظام یکے بعد دیگرے آئے اور تعلیم نسواں کی اہمیت، ضرورت اور اس کے افادیت کے متعلق مفید مشورے و قیمتی پندو نصائح پیش کیں اور سماج و معاشرہ کے عوام و خواص سے اپنی بچیوں کو دینی تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کرنے کی ترغیب دلائی نیز سماج و معاشرہ میں آئے دن در پیش ان تمام دینی مسائل پر بات چیت ہوئی جن میں بہ نسبت مردوں کے عورتیں کو معرفت ہونی چاہئے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ان کے پاس قرآن وحدیث کے صحیح علم ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں ماہر ہوں۔
پروگرام میں بحیثیت مہمان فضیلۃ الشیخ مساند الاسلام صاحب، فضیلۃ الشیخ افضل حسین اصلاحی، فضیلۃ الشیخ سلیمان‌ حسین مفتاحی، فضیلۃ الشیخ عبد الحکیم سلفی، فضیلۃ الشیخ ابراہیم سلفی، فضیلۃ الشیخ قمر الاسلام صاحب، فضیلۃ الشیخ احمد علی صاحب، ماسٹر عبد الغفار حفظہم اللہ موجود تھے۔ جنہوں نے اس دینی ادارہ کی تاسیس کے بعد اسے پورے نظم و ضبط کے ساتھ چلانے، اور اس کے انتظام و انصرام کی بحسن و خوبی انجام دہی جیسے مشکل امر کیلئے کمر بستہ ہونے کی بابت خوب سے خوب تر حوصلہ افزائی کی۔
اخیر میں پروگرام کے روح رواں فضیلۃ الشیخ انعام الحق مدنی حفظہ اللہ نے پروگرام میں شریک تمام علماء کرام و سامعین حضرات سے گذارش کی کہ دینی درسگاہ کی شکل میں اس مبارک شجر کو سینچنے و سنوارنے، روز افزوں اسے ترقی پزیر ہونے نیز اسکے برگ وبار سے قوم کو مستفید ہونے میں بالخصوص تمام علماء کرام اور بالعموم تمام اخوان دامے درمے سخنے قدمے ہمارا ساتھ دیں۔
ا س طرح بفضل للہ تعالی پروگرام بحسن وخوبی اپنے اختتام کو پہنچا اور جامعہ صفیہ الاسلامیہ کے رئیس ومؤسس فضیلۃ الشیخ انعام الحق مدنی حفظہ اللہ نے رب کریم اور تمام مہمانان عظام وسامعین کرام کے شکریہ کے ساتھ مجلس کے اختتام کا اعلان کیا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس ٹرسٹ ہذا کے چیئرمین حفظہ اللہ کی حیات دراز کرے، بصحت وعافیت رکھے اور اس ادارے کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے آمین۔