Posted on Leave a comment

گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا: محمد محب الله بن محمد سيف الدين المحمدی

الحمدلله والصلاة والسلام على نبيه ومصطفاه محمد وعلى آله وأصحابه وأتباعه ومن والاه ، اللهم أجرنا في مصيبتنا ،واخلف لنا خيرا منها ،
رحلت يا شيخنا (نیازالمدنی) والأرض مجدبة ،
وكنت بالعلم أبراقا وأمطارا ،
اس كارگاه ہستي ميں انسانوں کی آمد ورفت کا سلسلہ ابتداء ہی سے جاری ہے، چمنستان دہر کا ہر پھول اپنی جداگانہ حیثیت اور شناخت کے ساتھ آتا اور چلاجاتا ہے، ہمارے شیخ نیاز احمد طیب پوری مدنی رحمۃ اللہ علیہ کو اس عالم خاک وبو میں تقريبًا 60 سال کی فرصت حیات ملی
7,1,1963ءمیں انھوں نے اس جہان ناسوت میں آنکھ کھولی ،
ء 3,10,2022 میں آنکھوموند لی ، اور اپنے پیچھے سوگواروں کا ایک انبوہ چھوڑ گئے ، آپ تو چلے گئے لیکن آپ کی یادیں ، ذکریات ، جہود ،مساعی ،مآثر ،مناشط ،و خدمات کا چمن لہہ لہا رہا ہے ،
ما مات من ذكره باقٍ وسيرته
في كل قلب لها فيض وأنوار ،
یوں تو دنیا میں آنے والے ہر انسان کو ایک نہ ایک دن جاناہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن علم و ادب کا نفیس ذوق رکھنے والی ایک ایسی بالغ نظر ، روشن دماغ اور پہلو دار شخصیت کی وفات جس کا وجود سائبان کی طرح ہو، جس کی حیثیت گویا شمس و قمر کے مانند ہو کہ اس کی ضیا پاشیوں سے ایک دنیا منور ہو، اور جس نے ایک لمبے عرصے تک تعلیم وتدریس کی بساط بچھائی رکھی ہو اور علم و عرفان کی قندیلیں روشن کی ہوں، اور دین حق کا صحیح شعور،منہج سلف اور اسلام کی حقانیت عام کرنے میں اپنی پوری طاقت نچوڑ دی ہو، ایسے با فیض معلم ومربی کی وفات انتہائی دکھ وافسوس اور رنج وغم کی بات ہے، اور انسانی تاریخ کا بہت بڑا نقصان ہے،
گویا شاعر کی زبانی ،
سورج کی موت چاند ستاروں کی موت ہے
وہ ایک کی نہیں ہے، ہزاروں کی موت ہے
أيها الراحل المحبوب معذرة
اذا طغي من بحار الحزن تيار ،
شیخ سے پہلا تعارف :
بات 2016ء کی ہے جب میرا داخلہ جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں میں ہوا ، ایک دن شام میں مسجد عائشۃ الدعیج میں شیخ نیاز رحمہ اللہ سے میرا علیک سلیک ہوا ، اور یہ پہلی بالمشافہ ملاقات ہے شیخ سے میری ، یوں تو شیخ کے کئی مضامین اور اداریہ صوت الحق والبلاغ میں پڑھ چکا تھا ، غایبانہ عقیدت تو مدت مدید سے تھی ،
اس ملاقات نے عقیدت ومحبت کو دوبالا کردیا ، اتنی اپنائیت ،محبت، وتپاک سے ملے کہ میں رام ہوگیا ،
جامعہ پہنچنے کے چند دنوں بعد ہی شیخ کا پہلی دفعہ خطبۂ جمعہ سنا ، خطبہ اتنا پرتأثیر تھا کہ ابھی تک اس خطبے کے بعض اہم نکات ذہن کے گوشے میں محفوظ ہے ، شیخ کا موضوع تھا ” انسانی زندگی میں گناہوں کے اثرات ” میں نے دیکھا کہ بہت سارے طلاب شیخ کے خطاب کو اپنی ڈائری میں نوٹ کررہے ہیں ،
یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار ورسن کہاں ،
شیخ رحمہ اللہ کی اکثر گھنٹیاں کلیہ عائشہ میں تھیں ،تاہم ایک دو گھنٹی غالباً مسلم شریف وغیرہ آپ کلیہ کے طلباء کو پڑھاتے تھے ،
شیخ سے میں نے بھی استفادہ کی کوشش کی تھی بعض دفعہ عصر کی نماز کے بعد جب شیخ مسجد سے نکلتے تو میں آپ کے پیچھے لگ جاتا درس کے متعلق یا خارج درس کے سوالات کرتا اور شیخ سے مستفید ہوتے رہتا یہاں تک کہ آپ فرینہ منزل تک پہنچ جاتے ، کئی دفعہ شیخ نے مجھے اپنے گھر اور لائبرری میں بلایا ، اور بعض کتابیں بھی دکھائی ،
شیخ دعوتی مزاج کے تھے ، ملت کادرد وتڑپ تھا ، آپ مسلمانوں کی تعلیمی پستی وزبوں حالی کو دیکھکر کافی بے چین رہتے تھے ، نوجوانوں کے بگڑتے ہوئے حالات اور سماج ومعاشرے کی گندی سیاست واوچھی حرکت سے آپ کافی غمگین رہتے تھے ، شیخ نے اس طرح کے کئی واقعہ کا ذکر کیا ہے خوف طوالت کی بنا پر یہاں بیان نہیں کیا جا سکتا،
شیخ رحمہ اللہ نصیحت کیا کرتے تھے کہ مکتب کی تعلیم ٹھوس دیا جائے، کمیت سے زیادہ کیفیت پر توجہ دیا جائے، وغیرہ وغیرہ،
کرونا لاکڈاؤن سے پہلے کی بات ہے جب والد محترم نے مجلہ نواۓ ابوعبیدہ نکالنے کا فیصلہ کیا تو میں نے شیخ سے اس کا تذکرہ کیا ،چنانچہ شیخ نے کافی مسرت کا اظہار فرمایا اور ایک مضمون بھی اس نومولود مجلۂ کے لئے قلمبند کیا اور تہنئت وتبریک کے ایک خط بھی لکھے ، شیخ رحمہ اللہ ہم طلبہ کو مطالعہ کرنے پر ابھارتے تھے ، لکھنے( مضمون نگاری، تخلیص نگاری وغیرہ )، کی تلقین وتاکید کرتے تھے، آپ اپنے منفرد ونرالے انداز میں کہا کرتے تھے “لکھوں لکھنا لکھنے سے آتا ہے ” لکھنا سیکھو، چھپنا نہیں ” پڑھو پڑھنا پڑھنے سے آتا ہے “
شیخ طلباء کو اکثر کہا کرتے تھے کہ لایبریری جایا کرو ، مطالعہ کرو،اور سکون سے کروں ،اور اپنے ساتھ ایک ڈائری ہمیشہ رکھو ، بہت سارے طلباء سوچتے ہیں مطالعہ تو کرتے ہیں لیکن ذہن میں کچھ باقی نہیں رہتا تو معاملہ ایسا نہیں ہے ،بلکہ دماغ تو امانت دار چور ہے ،
شیخ نے مجھے ایک اہم کتاب ہدیہ کیا ہے ” بچے کیوں بگڑتے ہیں ” کہتے تھے ،اس سے اہم اہم نکات تلاش کرکے تم لوگ خطبہ میں بیان کرنا ، اس کا افادہ عام کرنا ،اسی طرح شیخ محترم نے اپنی تالیف کردہ ایک کتاب بزبان ہندی کے 15 نسخے ہدیہ دیئے ،اور کہا کہ اپنے ارد گرد کے غیر مسلم بھائی کو بعض نسخے دینا تاکہ وہ اسلام کا مطالعہ کرۓ، اور عنف وتشدد ختم ہو اور اللہ نے اگر توفیق دیا تو وہ اپنی مرضی سے دامن اسلام میں بھی پناہ لیں گے (ان شاءاللہ )
لہٰذا میں نے شیخ کی نصیحت پر عمل کیا اور اپنے بعض ہندو اساتذہ کو وہ کتابیں دی ،
شیخ رحمہ اللہ نے ایک دفعہ فرمایا کہ لوگ تعبیر کے فقیر ہوتے ہیں ، ایک دفعہ میں اپنے ہی قریبی رشتہ دار کی وفات پر اس کا گھر گیا ہوا تھا ، تو لوگوں کو دیکھ رہا ہوں اس مصیبت عظمی میں حال چال پوچھ رہے ہیں ،اور کیا خیریت ہے ؟ طبیعت پانی سب ٹھیک ہے نا ؟ بتائیے مصیبت ،رنج وملال ،غم واندوہ کا پہاڑ ہے ، ایسے موقعہ پر اس طرح کے جملے واقعی تکلیف دہ ہوتے ہیں ،
شیخ رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ مزاحا بتایا کہ ، بریلوی ودیوبندی ایک مٹر کے دو دانے ہیں ،
اسی طرح ایک دفعہ بتارہے تھے کہ بعض منکرین حدیث سے جب ہم نے بات کیا تو پتہ چلاکہ سب جاہل ہیں ،ان میں سے کئی ایک تو خیاط ہیں ،کپڑا وغیرہ سلتے ہیں ۔
وغیرہ وغیرہ ،
شیخ کے اوصاف :
هم الرجال اذا ما جئت تمدحهم
سمت على الحرف تيجان وأزهار ،
شیخ رحمہ اللہ ریاء ونمود سے دور رہتے ، صاف وشفاف سینہ ، بغض وحسد سے دور ،مصقل ومصفی دل ، فرط ذکاوت ،أخاذ ذہن ،قوی حافظہ ،مضبوظ ذاکرہ ، اور ایک زندہ دل شگفتہ مزاج ،مرنجا مرنج انسان تھے ،
شیخ کی دوممتاز خوبی ، جسے میں نے شیخ کی زندگی میں خاصکر دیکھا ،
1 ۔ مولانا مرحوم ایک ظریف انسان تھے ، بسا اوقات لطیف سا مذاق بھی کرلیا کرتے تھے ، ایک مرتبہ شیخ ہمارے بزم صحافت کی صدارت کررہے تھے ، طلباء کرام اپنا مقالہ پیش کررہے تھے ،اسی اثناء میں ایک ساتھی نے مطالعہ کی اہمیت پر مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے بعض اسلاف ایسے بھی گزرۓ ہیں جنھوں نے زندگی میں تین دن ہی مطالعہ نہ کرپائے تھے ، ان میں سے ایک دن وہ رات جسمیں آپ ازدواجی زندگی سے منسلک ہوئے تھے ، یعنی شب زفاف ، تو شیخ نے مسکراتے ہوئے صدارتی خطاب میں کہا کہ دیکھو تم لوگ ایسا نہ کرنا ، ورنہ قوی اندیشہ ہے بھاگ جاۓ گی ، پھر شیخ نے مطالعہ کے آداب اصول وضوابط پر مفصل و جامع خطاب کیا اور ہم سب محظوظ ہوتے رہے ،
2 ۔ شیخ رحمہ اللہ ہمت افزائی میں بھی بڑۓ فراخ دل تھے ، کسی نئے لکھنے والے ،پڑھائی میں محنت کرنے والے ،اچھے نمبرات لانے والے ،یاکسی کے اندر کوئی بھی اچھی خوبی ہوتی تو آپ جمکر داد دیتے ،تشجیع وتحفیز کرتے ، اور نیک مشوروں سے نوازتے ، ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازتے ، مزید جد وجہد کدکاوش کرنے کو کہتے اور باکمال دیکھنے کی تمنا کرتے تھے ،
گویا آپ زبان حال سے یہ کہہ رہے ہوتے کہ اڑو اڑتے جاؤں اور آسمان کو پہنچ جاو ،سورج کو چھو لو ،
من كان فوق محل الشمس موضعه
فليس يرفعه شئ ولا يضع ،
ان اوصاف کے علاوہ بہت ساری خوبیاں تھیں فقید رحمہ اللہ میں مثلاً، زبان میں مٹھاس اور حلاوت تھی ، قلم میں روانی اور سنجیدہ بیانی تھی ، نقد ونظر میں ژرف نگاہی ،تنقید میں سلامت روی تھی ،غرض کہ ان کی زندگی کے کسی گوشہ میں بھی ہنگامہ آرائی نہ ،شور وشر ،تصنع وتزخرف ،تکلف اور بناوٹ نہ تھی،وغیرہ وغیرہ ،
اس کے اوصاف حمیدہ اور بھی تو ہیں بہت
ذات میں اس کی چمکتے ہیں وہ جیسے کہکشاں
جنت الفردوس میں اس کے مراتب ہوں بلند
مہرباں اس پر رہے ہر آں خداۓ مہرباں ،
آمین ،
ہجوم اشغال :
شيخ نے اپنی زندگی کا ایک ایک حصہ کام میں لگایا ، درس وتدریس ،دعوت وتبلیغ ، بحث وتحقیق ،تصنیف وتالیف ،خطابت وصحافت ، وغیرہ میں مشغوف ومصروف رہے ، آپ کے استغلال وقت کا اندازہ کیجئے کہ آپ سفر میں بھی پڑھتے لکھتے رہتے تھے، ہندی زبان میں بخاری کی شرح جو آپ نے لکھا تو آپ بتارہے تھے کہ ہم نے سفر میں بھی اس پر کام کیا ہے ، شیخ قلم کے دھنی تھے ، بہت شستہ شگفتہ لکھتے ، چھوٹے چھوٹے جملے لکھتے ،اور ایسا لکھتے کہ بس پڑھتے جائیے اکتاہٹ آپ کی کسی تحریر سے نہیں ہوتی ہے ،آپ کی تحریرحشو وزوائد واطناب سے پاک ہوتی ، جدت وابتکار آپ کی نمایاں خوبیوں میں سے ہے،اس کےثبوت کیلئے ،آپ کا وہ علمی و قلمی سرمایہ ہے جو آپ نے اپنے پیچھے چھوڑۓ ہیں ،
گویا ،
میرۓقلم نے مذاق حیات بدلا ہے
بلندیوں پہ اڑا ہوں ،سما سے کھیلا ہوں ،
قارئین کی طرف سے یہ صدا کہ ،
تشنگی جم گئی پتھر کی طرح ہونٹوں پر
ڈوب کر بھی تیرے دریا سے پیاسا نکلا ،
ہمارے شیخ مختلف پریشانیوں اور ہجوم اشغال کے باوجود سارے بکھیڑوں اور ذمہ داریوں سے فراغت کرکے اپنی شخصیت کو باغ وبہار بنا لیا کرتے تھے ،لکھتے پڑھتے رہتے تھے ، محفل میں ہیں تو بے تکلف ہیں ،باغ وبہار بنے ہیں ،خطابت کے منبر اور اسٹیج پر ہیں تو سامعین پر حکمراں ہیں ، شگفتگی ٹھہراؤ تو شیخ کا خاص اسٹائل تھا ،
اللہ تعالیٰ نے شیخ رحمہ اللہ کو زبان وقلم کا مضبوط ملکہ دیا تھا ،بولتے کیا تھے موتی رولتے تھے ، اور سننے والے سردھنتے تھے ،اردو زبان ہو یا عربی، ایسے جاذب و دل کش انداز اور دل پذیر و پرتاثیر اسلوب میں لکھتے تھے کہ اس کا اثر پڑھنے والے اپنے دل پر محسوس کرتے تھے، اور یہ کہنے پر مجبور ہوتے تھے:
بے سبب دل نہیں کھنچتا تری باتوں کی طرف
کچھ نہ کچھ بات محرر! تری تحریر میں ہے،
معزز قارئین : یہ چند سطوریاد ماضی کے چند حسین لمحات سے مقتبس ہیں،باتیں بہت ہیں لیکن اتنے ہی پر اکتفاء کرتا ہوں ،
ع۔ سفینہ چاہئیے اس بحر بیکراں کیلئے ،
اخیر میں یہ وضاحت ضرور کرنا چاہتا ہوں کہ ،شیخ ایک عظیم شخصیت کے مالک تھے ، بہت عظیم تھے ،لیکن بشر ہی تھے خطاء وچوک بشر سے ہی ہوتا ہے ، کمال تو بس رب تعالیٰ کی خصوصیت ہے ،دعاء ہے کہ مولاۓ کریم شیخ کی خدمات کو قبول فرمائے ، اور ذلات کو معاف فرمائے ، جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے ،آمین یارب العالمین
ازقلم : محمد محب الله بن محمد سيف الدين المحمدی

Posted on Leave a comment

جامعہ صفیہ الاسلامیہ پربتی پور ، مرشد آباد ، مغربی بنگال

. جامعہ صفیہ الاسلامیہ کا افتتاحی پروگرام

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️
✒️ مفیض الدین بخاری

مؤرخہ 8 جنوری 2023ء بروز اتوار بوقت صبح ساڑھے نو بجے عالیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے زیر اہتمام چلنے والا ادارہ جامعہ صفیہ الاسلامیہ پربتی پور، کاندی، مرشد آباد، مغربی بنگال کا افتتاحی پروگرام نہایت ہی تزک و احتشام کے ساتھ منعقد ہوا۔ وقتِ مقررہ پر پروگرام کا آغاز فضیلۃ الشیخ حافظ حیات اللہ حفظہ اللہ کی تلاوت کلام پاک سے ہوا اور فضیلۃ الشیخ خوشبو الرحمن حفظہ اللہ نے چند اشعار کے ذریعہ شان رسالت میں گلہائے عقیدت پیش کیے بعدہ عالیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے روح رواں فضیلۃ الشیخ انعام الحق مدنی حفظہ اللہ نے استقبالیہ کلمات پیش کیے اور ادارہ کی تاسیس کے عزائم و مقاصد کو تفصیل کے ساتھ بیان کیے۔
اس افتتاحی پروگرام میں بحیثیت مہمان خصوصی فضیلۃ الشیخ شبیر احمد مدنی حفظہ اللہ اور راقم الحروف مدعو تھے، شیخ شبیر احمد مدنی حفظہ اللہ نے تعلیم نسواں کی اہمیت کی خوب وضاحت کی اور اس کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ والدین میں باپ خود تعلیم یافتہ ہو سکتا ہے لیکن ماں ایک قوم کو تعلیم و تربیت سے آراستہ و پیراستہ کر سکتی ہے اس لیے اپنی بچیوں کو تعلیم دے کر اپنی قوم کو علم سے منور کرنے والا بنیں۔ اور راقم الحروف نے سماج و معاشرہ کے عوام و خواص سے ان کی ان ذمہ داریوں کا احساس دلایا جو ان پر لابدی ہیں چنانچہ اس ضمن میں بتایا گیا کہ اولاد کے مابین فکری عدم توازن یعنی صرف بچے کو تعلیم کے لیے آگے بڑھانا اور اس کے لیے مختلف النوع پریشانیاں اٹھانا اور بچیوں کو تعلیم سے محروم کرنا، ان کے حق میں کوتاہی سے کام لینا اور اس کے مستقبل کی بلندی کے لیے خصوصی توجہات ‌مبذول نہ کرنا غیر منصفانہ عمل ہے۔
پھر پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے قرب و جوار و دور دراز علاقوں سے تشریف فرما مہمانان عظام یکے بعد دیگرے آئے اور تعلیم نسواں کی اہمیت، ضرورت اور اس کے افادیت کے متعلق مفید مشورے و قیمتی پندو نصائح پیش کیں اور سماج و معاشرہ کے عوام و خواص سے اپنی بچیوں کو دینی تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کرنے کی ترغیب دلائی نیز سماج و معاشرہ میں آئے دن در پیش ان تمام دینی مسائل پر بات چیت ہوئی جن میں بہ نسبت مردوں کے عورتیں کو معرفت ہونی چاہئے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ان کے پاس قرآن وحدیث کے صحیح علم ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں ماہر ہوں۔
پروگرام میں بحیثیت مہمان فضیلۃ الشیخ مساند الاسلام صاحب، فضیلۃ الشیخ افضل حسین اصلاحی، فضیلۃ الشیخ سلیمان‌ حسین مفتاحی، فضیلۃ الشیخ عبد الحکیم سلفی، فضیلۃ الشیخ ابراہیم سلفی، فضیلۃ الشیخ قمر الاسلام صاحب، فضیلۃ الشیخ احمد علی صاحب، ماسٹر عبد الغفار حفظہم اللہ موجود تھے۔ جنہوں نے اس دینی ادارہ کی تاسیس کے بعد اسے پورے نظم و ضبط کے ساتھ چلانے، اور اس کے انتظام و انصرام کی بحسن و خوبی انجام دہی جیسے مشکل امر کیلئے کمر بستہ ہونے کی بابت خوب سے خوب تر حوصلہ افزائی کی۔
اخیر میں پروگرام کے روح رواں فضیلۃ الشیخ انعام الحق مدنی حفظہ اللہ نے پروگرام میں شریک تمام علماء کرام و سامعین حضرات سے گذارش کی کہ دینی درسگاہ کی شکل میں اس مبارک شجر کو سینچنے و سنوارنے، روز افزوں اسے ترقی پزیر ہونے نیز اسکے برگ وبار سے قوم کو مستفید ہونے میں بالخصوص تمام علماء کرام اور بالعموم تمام اخوان دامے درمے سخنے قدمے ہمارا ساتھ دیں۔
ا س طرح بفضل للہ تعالی پروگرام بحسن وخوبی اپنے اختتام کو پہنچا اور جامعہ صفیہ الاسلامیہ کے رئیس ومؤسس فضیلۃ الشیخ انعام الحق مدنی حفظہ اللہ نے رب کریم اور تمام مہمانان عظام وسامعین کرام کے شکریہ کے ساتھ مجلس کے اختتام کا اعلان کیا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس ٹرسٹ ہذا کے چیئرمین حفظہ اللہ کی حیات دراز کرے، بصحت وعافیت رکھے اور اس ادارے کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے آمین۔

Posted on Leave a comment

غزل، Gajal

Salik Bastavi, सालिक बस्तवी, سالک بستوی شاعر

غزل
سالک بستوی ایم اے
خون جگر پلا کے چمن کو سنوار دے
شاداب شاخ شاخ ،ہوا خوشگوار دے
مالی بنا ہے باغ کا تو فرض بھی نبھا
مایوس بلبلوں کو نئی پھر بہار دے
دنیا کو آئےرشک تری خوئے نیک پر
کردار پھول کی طرح اپنا نکھار دے
دنیا دیوانی ہوگی تری ایک دن ضرور
مخلوق کےدلوں میں تو خود کو اتار دے
یہ زندگی ملی ہے تجھے ؐ چارؐ روز کی
”روکرگزار یا اسے ہنس کر گزار دے“
ہوجائے گا وہ آدمی اللہ کا حبیب
جو پرخلوص قلب سے اس کو پکار دے
جھوٹی قسم جو کھا کےدیا کرتا ہےفریب
اس کو کبھی نہ بھول کےسودا ادھاردے
کرنا حسد برا ہے امیروں کے مال پر
اللہ جس کو چاہے اسے بے شمار دے
چلنے لگی ہے نسل نئی راہ پر خطر
ہے باپ تو اولاد کی عادت سدھار دے
سالک کی ہے دعا یہی پرور دگار سے
پستی میں قوم ہےمری اس کو ابھاردے

Posted on Leave a comment

غزل، Gazal, गज़ल

غزلسالک بستوی ایم اےخون جگر پلا کے چمن کو سنوار دےشاداب شاخ شاخ ،ہوا خوشگوار دےمالی بنا ہے باغ کا تو فرض بھی نبھامایوس بلبلوں کو نئی پھر بہار دےدنیا کو آئےرشک تری خوئے نیک پرکردار پھول کی طرح اپنا نکھار دےدنیا دیوانی ہوگی تری ایک دن ضرورمخلوق کےدلوں میں تو خود کو اتار دےیہ زندگی ملی ہے تجھے ؐ چارؐ روز کی”روکرگزار یا اسے ہنس کر گزار دے“ہوجائے گا وہ آدمی اللہ کا حبیبجو پرخلوص قلب سے اس کو پکار دےجھوٹی قسم جو کھا کےدیا کرتا ہےفریباس کو کبھی نہ بھول کےسودا ادھاردےکرنا حسد برا ہے امیروں کے مال پراللہ جس کو چاہے اسے بے شمار دےچلنے لگی ہے نسل نئی راہ پر خطرہے باپ تو اولاد کی عادت سدھار دےسالک کی ہے دعا یہی پرور دگار سےپستی میں قوم ہےمری اس کو ابھاردے
Posted on Leave a comment

ترانۂ توحید

ترانۂ توحید
سالک بستوی ایم اے

شمع دین ھدی کو جلاتے چلو
ظلمت شرک وبدعت مٹاتےچلو
جوت حسن عمل کی جگاتے چلو
زندگی کا ترانہ سناتے چلو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عزم کامل کے جوہر دکھا تے چلو
جام توحید و سنت پلا تے چلو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پنجۂ کفر و طاغوت کو موڑ دو
بغض و نفرت کی دیوارکو توڑدو
دہریت کے نشیلے سبو توڑ دو
آنکھ دکھلائے باطل توسرپھوڑ دو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلستاں حریت کا سجاتے چلو
جام توحید وسنت پلاتے چلو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم موحد ہو حاجت روا ہے خدا
صرف رب دوعالم ہےحاجت روا
جس کےسینے میں ہے نورایمان کا
سرفرازی کا جلوہ ہے اس پر فدا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راہ حق پر چلو مسکراتے چلو
جام توحید وسنت پلاتے چلو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم سجاتے رہو دین کی رہ گزر
اسوۂ مصطفے پر فدا ہو نظر
فکر ملت رہے تم کو شام وسحر
منزل ارتقاء پر چلو جھو م کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاؤ ں منزل کی جانب بڑھاتےچلو
جام توحید وسنت پلا تے چلو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‌‌۔
اپنی منزل کی جانب بڑھاؤ قدم
پھونک دو کفر کے خارزار ستم
لے کے توحید وسنت کا سالک علم
شوق سے تم سناؤ نوائے حرم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فتنۂ دہریت کو دباتے چلو
جام توحید وسنت پلاتے چلو

Posted on Leave a comment

منکرین حدیث کا شوشہ اور مرتد کی سزا

*#منکرین_حدیث_کا_شوشہ_اور_مرتد_کی_سزا**تحریر: عبدالخبیر السلفی*

منکرین حدیث کے حدیث کے خلاف پھیلائے گئے بہت سارے شوشوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مرتد کی دنیاوی سزا قرآن کے خلاف ہے آئندہ سطور میں اسی شوشہ سے متعلق چند باتیں قارئین کی خدمت میں پیش کی جائیں گی!*ارتداد کی سزا قرآن و حدیث کی روشنی میں*منکرین حدیث کے اٹھائے شوشوں میں سے ایک شوشہ یہ بھی ہے کہ ارتداد کی سزا حدیث میں موت بتلائی گئی ہے جو قرآن کے خلاف ہے کیوں کہ قرآن میں ایسی کوئی دنیاوی سزا کا ذکر نہیں ہے اور اس کے ثبوت میں قرآن کی یہ آیات پیش کرتے ہیں 1_ اللہ تعالٰی فرماتا ہے:”كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ وَشَهِدُوا أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ، أُولَٰئِكَ جَزَاؤُهُمْ أَنَّ عَلَيْهِمْ لَعْنَةَ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، خَالِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنظَرُونَ” (آل عمران:86_88)ترجمہ: اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو کیسے ہدایت دے گا جو اپنے ایمان لانے اور رسول کی حقانیت کی گواہی دینے اور اپنے پاس روشن دلیلیں آ جانے کے بعد کافر ہوجائیں، اللہ تعالیٰ ایسے بے انصاف لوگوں کو راہ راست پر نہیں لاتا۔ان کی تو یہی سزا ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔ جس میں یہ ہمیشہ پڑے رہیں گے نہ تو ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا نہ انہیں مہلت دی جائے گی۔2_ اللہ تعالٰی فرماتا ہے:”إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَّمْ يَكُنِ اللَّهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيلًا” (النساء:137)ترجمہ: جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور پھر گئے، پھر ایمان لا کر پھر کفر کیا، پھر اپنے کفر میں بڑھ گئے اللہ تعالیٰ یقیناً انہیں نہ بخشے گا اور نہ انہیں راہ ہدایت سمجھائے گا۔ *طریقہ استدلال*یہ اور اس معنی اور مفہوم کی اور بھی آیات ہو سکتی ہیں جن سے حدیث میں موجود ارتداد کی سزا کے مخالف قرآن ہونے پر استدلال کیا جاتا ہے طریقہ استدلال یہ ہے کہ قرآن مجید نے یہاں مرتد کی کسی بھی سزا کا ذکر نہیں کیا ہے بلکہ صرف اخروی سزا کا ذکر ہے حالانکہ یہ کوئی قائدہ نہیں کہ ایک جگہ کسی چیز کا ذکر نہیں ہے تو وہ دوسری جگہ نا ہو اس اصول سے کئی آیات کو معطل کیا جا سکتا! پھر منکرین کا یہ بھی کہنا ارتداد کی دنیاوی سزا جو حدیث سے ثابت ہے قرآن کی روح سے میچ نہیں کھاتی جو “لا اكراه في الدين ” فرماکر ہر شخص کو عقیدہ کی آزادی دیتا ہے اس کا بھی جواب ان شاء اللہ ضمنا آئے گا، آگے بڑھنے سے قبل چند باتیں ذہن نشین کر لیں!*چند ملاحظات* اکثر دیکھا گیا ہے کہ ارتداد کی سزا کو لیکر غیر مسلموں کی طرف سے اعتراضات ہوتے رہتے ہیں اور یہ تاثر دیا جاتا کہ اسلام میں ارتداد کی سزا موت ہے اور جو بھی مرتد ہو اس کو کوئی بھی مسلمان فورا پکڑ کر اور بغیر کسی تحقیق کے سیدھا قتل کر سکتا ہے، معترضین کی دیکھا دیکھی اور مرعوبیت کا شکار ہو کر بعض نام نہاد “مسلم اسکالر ” بھی اسی راہ پر گامزن ہیں اس لئے منکرین کے استدلال کی تردید سے قبل خاص طور پر دو باتیں قابل غور ہیں:1_ *ارتداد کی سزا ایک حد اور دفعہ ہے*اسلامی رو سے حد یا دفعہ کا مطلب ہے وہ سزائیں جو مجرم کو حقوق اللہ میں کوتاہی یا نا فرمانی، غداری وغیرہ کرنے کی وجہ سے اسلامی حکومت کے توسط سے دی جاتی ہیں جیسے چور کا ہاتھ کاٹنا ناحق جان کے بدلے میں قاتل کو قتل کرنا زانی کو کوڑے یا رجم وغیرہ یعنی یہ ایک طرز حکومت ہے جس میں من جانب اللہ اسلامی حکومت کو سزا دینے کا حق دیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسلم عوام کو حدود قائم کرنے کا اختیار نہیں ہے بلکہ یہ حکومت کی زیر نگرانی قائم کی جاتی ہیں جب یہ ایک حکومتی دفعہ ہے تو اس پر کسی کو اعتراض کا حق کیسے ہو سکتا ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں دنیا میں کئی سیکولر حکومتیں ایسی ہیں جنہوں نے قتل کی سزائیں مقرر کر رکھیں ہیں ہمارے یہاں ہندوستان میں بھی کتنے ہی لوگوں کو پھانسی یا قتل کی سزائیں دی جاتی رہی ہیں اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے 2_ مذہب تبدیل کرنے پر موت کی سزا کوئی اسلام کی ایجاد نہیں بلکہ کافروں بلکہ اہل کتاب میں بھی اس سے پہلے یہ سلسلہ جاری رہا ہے یہودیوں کے ہاتھوں عیسائیوں کا قتل عام اور عیسائیوں کے ہاتھوں یہودیوں کا قتل عام اسلام سے قبل بھی جاری تھا قرآن اس کی شہادت دیتا ہے :”قُتِلَ اَصْحَابُ الْاُخْدُوْدِ، اَلنَّارِ ذَاتِ الْوَقُوْدِ، اِذْ هُـمْ عَلَيْـهَا قُعُوْدٌ، وَهُـمْ عَلٰى مَا يَفْعَلُوْنَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ شُهُوْدٌ، وَمَا نَقَمُوْا مِنْـهُـمْ اِلَّآ اَنْ يُّؤْمِنُـوْا بِاللّـٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَـمِيْدِ ” (البروج : 4_8)خندقوں والے ہلاک ہوئے۔ جن میں آگ تھی بہت ایندھن والی۔جب کہ وہ اس کے کنارو ں پر بیٹھے ہوئے تھے۔اور وہ ایمانداروں سے جو کچھ کر رہے تھے اس کو دیکھ رہے تھے۔اور ان سے اسی کا تو بدلہ لے رہے تھے کہ وہ اللہ زبردست خوبیوں والے پر ایمان لائے تھے۔زمانہ جاہلیت کے کفار و مشرکین نے حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کو صرف دین بدلنے کی ہی وجہ سے شہید کیا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا فرمان دار الندوہ میں اسی مقصد کے تحت پاس ہوا تھا، بدر احد اور خندق کی مسلمانوں پر چڑھائی بھی اسی جذبے کے تحت تھی ورنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا مسلمانوں نے کفار کی زمینیں و جائیدادیں تو ہڑپ نہیں کی تھیں؟ ہمارے یہاں ہندوستان میں صدیوں سے چلی آرہی جنگیں جن میں لاکھوں لوگوں کو قتل کیا گیا اسی جذبہ سے تھا اور اس دور جدید میں بھی بھیڑ کی شکل میں نہتھوں کو رنگ جانوروں کے نام پر موت کی نیند سلا دیا اور کتنوں کو آگ کے حوالہ کر دیا جاتا ہے اس کے پیچھے بھی یہی مقصد ہوتا ہے لیکن واہ رے منصفوں تمہیں اعتراض صرف اسلام پر ہی کرنا آتا ہے!ان ملاحظات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام ارتداد کی سزا کو ایک معاشرتی جرم کی طرح دیکھتا ہے کہ وہ ایک مسلمان کو یہ اجازت ہرگز نہیں دیتا کہ وہ اسلامی حکومت میں رہتے ہوئے اللہ اور اس حکومت سے غداری کرے جو اس کے اچھے بھلے کی ہر طرح سے کفالت کرتی ہے جیسے کتنی ہی حکومتوں نے آج بھی وطن سے غداری کے نام پر موت کی سزائیں مقرر کر رکھیں ہیں جبکہ ہر شخص جانتا ہے ہر کس و نا کس کے یہاں وطن سے زیادہ اہمیت اس کے دین کو ہے چاہے وہ اس کا إقرار کرے یا نا کرے! ہاں اگر کوئی غیر مسلم ہے اس تک اسلام کی حقانیت نہیں پہنچی یا مسلمان اس کو اسلام کی حقانیت نہیں سمجھا سکے تو اس کو ایک پر امن شہری کی طرح اسلامی حکومت میں رہنے کی مکمل آزادی ہے دین کو لیکر اس پر کوئی جبر نہیںاس سے مزید یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے اس کو قانون اور دفعہ کی حیثیت دی ہے ما قبل اسلام اور ما بعد اسلام غیر مسلموں کے جنگل راج کی طرح اس کو عوام کے حوالہ نہیں کیا ہے کہ کوئی بھی الزام تراشی کرکے کسی سے بھی اپنے من کی بھڑاس نکال لے! *ارتداد کی سزا اور منکرین حدیث کی تردید*مرتد کی سزا کے سلسلہ میں جو موقف ہے وہ تقریبا متفق علیہ ہے اس میں شاید ہی کسی معتبر امام یا محدث نے اختلاف کیا ہو ؟ اس کی بنیاد حدیث کی طرح قرآن مجید میں بھی ہے منکرین حدیث کا یہ باطل پروپیگنڈہ ہے کہ ارتداد کی دنیاوی سزا صرف حدیث میں ہے جو قرآن کے خلاف ایک سازش ہے، پہلے حدیث دیکھتے ہیں کیوں حدیث بھی قرآن ہی کی طرح شریعت کا مآخذ ہے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں یاد رہے یہ حدیث اس موقع پر إبن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان فرمائی جب کہ ان کو یہ خبر موصول ہوئی کہ کچھ لوگوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حکم سے بطور سزا آگ سے جلایا جا رہا ہے تو انہوں نے فرمایا کہ اگر میں ہوتا تو ان کو آگ سے نا جلاتا، پھر فرمایا تم لوگ اللہ کے عذاب سے عذاب نا دو! بلکہ میں ان کو قتل کرتا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ “. جس نے دین بدلا اس کو قتل کر دو (بخاری:3017، أبو داود:4351 ، ترمذی:1458، نسائی:4075، ابن ماجہ: 2070، مسند احمد:1871، ابن حبان:4475، المعجم الأوسط للطبرانی 8/275) یہ مختلف حوالے عربی اور عجمی محدثین کے اس لئے بیان کئے گئے ہیں تاکہ منکرین سنت کے اس پروپیگنڈہ کی بھی نقاب کشائی ہو جو بات بات پر کہتے ہیں یہ عجمیوں اور بخاری کی قرآن کے خلاف سازش ہے اور کئی حوالے جان بوجھ کے چھوڑ دیے ہیں طوالت کے خوف سے۔*قرآن مجید سے ارتداد کی دنیاوی سزا* ابھی گزرا حدیث کی طرح قرآن میں بھی ارتداد کی دنیاوی سزا کا ذکر موجود ہے ملاحظہ فرمائیں، اللہ تعالٰی فرماتا ہے: “وَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ كَمَا كَفَرُوا فَتَكُونُونَ سَوَاءً ۖ فَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِيَاءَ حَتَّىٰ يُهَاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ۖ وَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا” (سورہ نساء:89)ترجمہ: ان کی تو چاہت ہے کہ جس طرح کے کافر وہ ہیں تم بھی ان کی طرح کفر کرنے لگو اور پھر سب یکساں ہوجاؤ، پس جب تک یہ اسلام کی خاطر ہجرت نا کر لیں ان میں سے کسی کو حقیقی دوست نہ بناؤ پھر اگر یہ منہ پھیر لیں تو انہیں پکڑو اور قتل کرو جہاں بھی ہاتھ لگ جائیں خبردار ان میں سے کسی کو اپنا رفیق اور مددگار نہ سمجھ بیٹھنا۔یہ آیت ان تین سو منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی جو جنگ احد کے موقع پر مسلمانوں سے الگ ہو گئے تھے ان کے تعلق سے مسلمانوں کے دو گروہ ہو گئے تھے ایک کا خیال تھا پہلے ان سے قتال کیا جائے پھر حملہ آور مکہ کے کافروں کی خبر لی جائے دوسرے گروہ کا کہنا تھا ان کو ابھی نظر انداز کر دیا جائے اللہ نے مسلمانوں کے پہلے گروہ کی تائید فرمائی اور نصیحت فرمائی پھر اگلی آیت میں یہ حکم دیا کہ اگر یہ اسلام کی خاطر ہجرت نا کریں ( رجوع الی اللہ نا کریں ) تو ان کو جہاں پاؤ قتل کرو یہ آیت کریمہ واضح طور پر منافقوں کی سزا قتل متعین کرتی ہے چونکہ انہوں نے اپنے دیرینہ نفاق کی وجہ بظاہر رجوع الی اللہ کر لیا اس لئے دنیاوی سزا سے بچ گئے اس سے منکرین حدیث کی غلط بیانی بھی معلوم ہوتی در حقیقت جو حدیث کا منکر ہے وہ قرآن کا بھی منکر ہے کیوں کہ کوئی بھی صحیح حدیث ایسی موجود نہیں جو بظاہر قرآن کے خلاف نظر آتی ہو اور اس کی مناسب توجیہ نا کی جا سکتی ہو !

Posted on Leave a comment

زندہ دلی کیا ہے ؟

    اصل مسئلہ دل کا ہے ، ہمارے دل مردہ ہو چکے ہیں، ان میں زندگی کی لہر دوڑانا ناگزیر ہے، دل بے شمار بیماریوں کا شکار ہیں، ان کا علاج از بس ضروری ہے۔
    دل کو جسم انسانی میں ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے جو کیفیت دل کی ہوتی ہے اعمال اسی کی ترجمانی کرتے ہیں۔ دل میں فساد و بربریت ہو تو اعمال سے یقیناً درندگی ٹپکے گی اور اس کے برعکس اگر دل میں امن و آشتی کے جذبات ہوں تو اعمال سے محبت و الفت کے زمزمے پھوٹیں گے۔ اسی لئے تو آنحضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:
    «اَلَا فِي الْجَسَدِ مُضْغَةٌ اِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الْجَسَدُ كُلُّه وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّه اَلَا وَھِيَ الْقَلْبُ »
    کہ جسم انسانی میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہوتا ہے تو جسم کے تمام اعضاء درست کام کرتے ہیں۔ جب اس میں خرابی پیدا ہوتی ہے تو تمام جسم میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔
    خبردار! وہ گوشت کا ٹکڑا انسانی دل ہے۔
    تعمیرِ انسانیت کے لئے سب سے پہلی اور بنیادی شرط یہ ہے کہ دل میں زندگی پیدا کی جائے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زندہ دلی سے مراد کیا ہے؟ کیا اس دل کو زندہ نہیں کہا جائے گا جو معمول کے مطابق حرکت کرتا ہو اور جو دوسرے اعضاء کو باقاعدگی سے خون پہنچاتا ہو؟ زندہ دلی اسی کا نام ہے تو پھر اس کائنات میں کس کا دل مردہ ہے؟
    اس سوال کا جواب میں اپنی طرف سے نہیں بلکہ علامہ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کے افادات سے دوں گا۔ جس سے یہ چیز کھل کر سامنے آجائے گی کہ زندہ دلی سے مراد کیا ہے؟
    اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ،
    ﴿وَمَاۤ أَرۡسَلۡنَا مِن قَبۡلِكَ مِن رَّسُولࣲ وَلَا نَبِیٍّ إِلَّاۤ إِذَا تَمَنَّىٰۤ أَلۡقَى ٱلشَّیۡطَـٰنُ فِیۤ أُمۡنِیَّتِهِۦ فَیَنسَخُ ٱللَّهُ مَا یُلۡقِی ٱلشَّیۡطَـٰنُ ثُمَّ یُحۡكِمُ ٱللَّهُ ءَایَـٰتِهِۦۗ وَٱللَّهُ عَلِیمٌ حَكِیمࣱ ۝٥٢ لِّیَجۡعَلَ مَا یُلۡقِی ٱلشَّیۡطَـٰنُ فِتۡنَةࣰ لِّلَّذِینَ فِی قُلُوبِهِم مَّرَضࣱ وَٱلۡقَاسِیَةِ قُلُوبُهُمۡۗ وَإِنَّ ٱلظَّـٰلِمِینَ لَفِی شِقَاقِۭ بَعِیدࣲ ۝٥٣ وَلِیَعۡلَمَ ٱلَّذِینَ أُوتُوا۟ ٱلۡعِلۡمَ أَنَّهُ ٱلۡحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَیُؤۡمِنُوا۟ بِهِۦ فَتُخۡبِتَ لَهُۥ قُلُوبُهُمۡۗ وَإِنَّ ٱللَّهَ لَهَادِ ٱلَّذِینَ ءَامَنُوۤا۟ إِلَىٰ صِرَ ٰ⁠طࣲ مُّسۡتَقِیمࣲ ۝٥٤﴾ [الحج ٥٢-٥٤]
    اس آیت کی تفسیر میں علامہ ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے
    ”دل تین قسم کے ہیں۔ قلبِ سلیم (زندہ دل)، قلبِ میت (مردہ دل)، قلبِ مریض (بیمار دل)”
    قلبِ سلیم یعنی زندہ دل کی تعریف انہوں نے ان الفاظ میں کی ہے:
    «اَلَّذِيْ سَلِمَ مِنْ كُلِّ شَھْوَةٍ تُخَالِفُ اَمْرَ اللهِ وَنَھْيَه »
    یعنی زندہ دل وہ ہوتا ہے جو ہر اس خواہش سے پاک ہو جو اللہ تعالیٰ کے حکمِ امتناعی اور اثباتی کے مخالف ہو۔
    مزید برآں لکھتے ہیں:
    «فَسَلِمَ مِنْ عَبُوْدِيَّةِ مَا سِوَاهُ مُخْلِصٌ لِلهِ مَحَبَّتِه وَخَوْفِه وَرَجَائِه وَالتَّوَكُّلِ عَلَيْهِ وَالْاِنَابَةِ اِلَيْهِ وَاِيْثَارِ مَرْضَاتِه فِيْ كُلِّ حَالٍ وَالتَّبَاعُدِ مِنْ سَخَطِه اِنْ اَحَبَّ اَحَبَّ فِي اللهِ وَاِنْ اَبْغَضَ اَبْغَضَ فِي اللهِ وَاِنْ اَعْطٰي اَعْطٰي لِلهِ وَاِنْ مَّنَعَ مَّنَعَ لِلهِ »
    (دیکھئے تفسیر ابن القیم ،تحت ہذہ الآیۃ )
    یعنی زندہ دل وہ ہوتا ہے جو اللہ رب العزت کی بندگی کے سوا ہر کسی کی بندگی سے محفوظ ہو جس میں اللہ تعالیٰ سے محبت اور ڈر۔ اسی سے امید اور اسی پر بھروسہ پورے اخلاص کے ساتھ پایا جائے جو ہر حالت میں اسی کے حضور جھکے، اسی کی رضا کو ترجیح دے۔ جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے دور بھاگے۔ اگر کسی کو پسند کرے تو خدا کے لئے اور اگر ناپسند کرے تو بھی خدا کے لئے۔ اگر کسی کو دینے کا جذبہ پیدا ہو تو اپنے رب کو خوش کرنے کے لئے اور اگر کسی کو نہ دینے کا ارادہ ہو تو بھی اسی کی مرضی کے مطابق۔
    علاوہ ازیں زندہ دل میں یہ اوصاف بھی پائے جاتے ہیں مثلاً حیا، پاکیزگی، صبر و تحمل، شجاعت، غیرت، خودی، نیکی سے محبت اور برائی سے نفرت۔
    جس دل میں یہ خوبیاں پائی جائیں، اس میں ایک نور، ایک چمک پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسا دل در حقیقت تجلیاتِ الٰہی کا مرکز ہوتا ہے۔ ایسے دِل پر انوارِ الٰہیہ کی بارش ہوتی ہے۔ اس حالت میں یہ محض ایک گوشت کا لوتھڑا نہیں ہوتا بلکہ نورانیت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بن جاتا ہے۔ جس سے محبت و الفت، امن و آشتی، رحمت و رافت، صبر و تحمل اور ہمت و شجاعت کے بخارات اُٹھتے ہیں اور رفعت و سربلندی کے بادل بن کر ہر سو پھیل جاتے ہیں۔ جن سے علم و حکمت اور عقل و دانش کی ایسی بارش ہوتی ہے کہ مردہ دلوں کے لئے حیاتِ نو کا پیام لاتی ہے اور پیاسے دلوں کو سیراب کرتی ہے۔ چنانچہ زندگی کا صحیح معنوں میں لطف اس شخص کو حاصل ہوتا ہے جو اپنے سینے میں ایسا دل رکھتا ہے جو مذکورہ بالا خوبیوں سے متصف و مشرف ہو۔ لہٰذا ہم میں سے ہر ایک کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے دل کا جائزہ لے اور یہ دیکھے کہ ان میں سے کون کون سی چیزوں میں موجود ہے اور کون کون سی چیز سے دل محروم ہے۔ جو چیز موجود ہے اس کو مستقل بنایا جائے اور جس چیز سے محرومی ہے، اس کو پیدا کیا جائے ورنہ انسانیت کی تعمیر ممکن نہیں۔
    آج مسلم قوم کا یہ سب سے بڑا المیہ ہے کہ اس معیار کا صاحبِ دل عنقا ہے۔ ہر سو جہالت و مردہ دلی کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جب تک یہ چیز ختم نہیں ہوتی اس قوم کو سرخروئی نصیب نہیں ہو سکتی۔ حافظ ابنِ قیمؒ نے تو مردہ دل انسانوں کو حقیقی مردوں کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ فرماتے ہیں:
    «وَھٰذَا مِنْ اَحْسَنِ التَّشْبِيْهِ لِاَنَّ اَبْدَانَهُمْ قُبُوْرُ قُلُوْبِھِمْ فَقَدْ مَاتَتْ قُلُوْبُھُمْ وَقَبْرَتْ فِيْ اَبْدَانِھِمْ »
    کہ یہ ایک بہترین تشبیہ ہے اس لئے کہ ان کے بدن ان کے دلوں کی قبریں ہیں۔ دل مر گئے ہیں اور انہیں ان کے ابدان میں دفن کر دیا گیا ہے۔
    یہاں پر مردہ دلی سے مراد یہ نہیں کہ ان دلوں کی حرکت یا دھڑکن بند ہو گئی ہے بلکہ اس سے مراد وہ دل ہیں جن میں مذکورہ چیزوں میں سے کوئی چیز نہ پائی جائے، جن پر جہالت و نحوست کی تہیں جمی ہوں اور جن میں زندگی پیدا کرنا صرف اسی طور ممکن ہے کہ مذکورہ اوصاف ان میں بتدریج پیدا کیے جائیں۔
    آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ:
    ”جس طرح لوہا زنگ آلود ہو جاتا ہے بعینہٖ انسانی دل بھی زنگ آلود ہو جاتا ہے۔ آپ ﷺ سے دریافت کیا گیا، یا رسول اللہ ﷺ! دل کو صیقل کرنے یا اسے جلا بخشنے کا طریقہ کیا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا، اللہ ربّ العزت کا تصور اور ہر آن اس کی یاد دلوں کو جلا بخشتی ہے اور ان میں نورانیت پیدا کرتی ہے۔”
    غرضیکہ جو اپنی خوابیدہ انسانیت کو بیدار کرنا چاہتا ہے، اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے دل کا جائزہ لے اور بتدریج اصلاح کی کوشش کرے ورنہ بصورتِ دیگر انسان اور حیوان میں کوئی بنیادی فرق نہ ہو گا اور ایسا انسان ﴿ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سَافِلِيْنَ﴾ اور﴿اُوْلٰٓئِكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ﴾ کے زمرے میں آجائیگا۔
    ٭ تو کیا ہماری تخلیق کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم کھائیں پئیں اور مر جائیں؟
    ٭ کیا اس کائنات میں ہم پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی؟
    ٭ کیا ہمیں کسی ضابطۂ اخلاق کی ضرورت نہیں؟
    ٭ کیا ہم انسان ہیں؟ کیا ہم اشرف المخلوقات ہیں؟
    ٭ کیا ہمیں ”خلیفة الارض” بننے کا شرف حاصل ہے؟
    ٭ اگر ہے تو کیوں؟
    مسلمانو! ذرا اپنے دلوں کا جائزہ لو۔ دماغوں سے سوچو اور میرے سوالات کا جواب دو۔,،
    دل ہے تو دھڑکنے کا بہانہ کوئ ڈھونڈھے
    پتھر کی طرح بے حس و بے جان سا کیوں ہے،
    نوٹ : اس موضوع پر مزید مطالعہ کے لئے دیکھئے الوابل الصیب ، الداء والدواء ، تفسیر ابن القیم ، طریق الھجرتین وغیرہ ،
    هذا وصلي الله علي نبيينا محمد وسلم ،
    كتبه ،
    ✍️✍️محمد محب الله بن محمد سيف الدين المحمدي ،