تاریخ اسلامی کا وہ حساس اور پر آشوب دور تھا جب اندلس سے ایک طالب علم بغداد کا رخ کرتا ہے منطق و فلسفہ اور علم کلام کی موشگافیوں نے ایک نیافتنہ “خلق قرآن “کو جنم دیا حتی کہ خلیفہ وقت بھی اس کا شکار ہو گیا امام اہل سنت احمد بن حنبل رحمہ اللہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے ” القرآن كلام الله ليس بمخلوق ” اور مخالفین کو للکارتے رہے کہ خلق قرآن پر کوئی دلیل ہے تو لاؤ ہم مان لیں گے۔ خلیفۂ وقت نے قید وبند کی سزائیں دی پھر جیل سے رہا ہوئے تو گھر میں نظر بند کر دیا تدریس سے روک دیا عوامی تعلقات پر قدغن لگا دی اس اثناء میں بقی بن مخلد اندلس سے حصول علم کے لیے بغداد وارد ہوتے ہیں یہاں پہنچ کر حالات کی سنگینی کا علم ہوا لوگوں سے امام احمد کے گھر کا پتہ پوچھتے ہوئےپہنچے دروازے پہ دستک دی امام نکل کر آئے بقی بن مخلد گویا ہوئے: ابو عبد اللہ! میں ایک مسافر اور پردیسی ہوں پہلی دفعہ اس ملک میں آیا ہوں مقصد علم حدیث کا حصول ہے اور منزل مقصود آپ ہیں امام اہل سنت پوچھتے ہیں: کہاں سے آئے ہو ؟ مغرب اقصی سے.. جواب دیا افریقہ سے ؟ نہیں بلکہ اس بھی زیادہ دور.. اندلس سے امام احمد : تم واقعی بہت دور سے آئے ہو اور مجھے تمہاری مدد ضرور کرنی چاہئے مگر میں آزمائش کے دور سے گزر رہا ہوں جس کا تمہیں شاید علم ہے. بقی بن مخلد: ہاں مجھے پتہ ہے مگر یہاں مجھے کوئی جاننے والا نہیں اگر آپ مجھے اجازت دیں تو ہر روز میں آپ کی خدمت میں ایک بھکاری کے روپ میں آؤں گااور دروازے پر پہنچ کر وہی کہوں گا جو سوالی کہتا ہے اور آپ نکل کر کم از کم ایک حدیث بیان کر دیں گے یہی میرے لیے کافی ہوگا – غالب نے کہا تھا بدل کر فقیروں کا ہم بھیس غالب پہن گدڑی زلف صنم دیکھتے ہیں علم کا شیدائی کبھی ہار نہیں مانتا امام احمد نے کہا : ٹھیک ہے مگر ایک شرط ہے کہ کسی کے سامنے میرا نام ظاہر نہ کرنا حتی کہ محدثین کے سامنے بھی – بقی بن مخلد نے کہا: مجھے یہ شرط منظور ہے. لہذا اپنے ہاتھوں میں چھڑی لیکر سر میں میلا چیتھڑا لپیٹ کردروازےپر آتے اورآواز لگاتے” الاجر رحمك الله ” بھیک دے دو اللہ تم پر رحم کرے وہ برابر یہی کرتے رہے حتی کہ واثق باللہ فوت ہو گیا اور متوکل علی اللہ خلیفہ بنا ( سیر اعلام النبلاء: شمس الدین ذہبی )عزیز طلبہ! تاریخ کے اس عظیم واقعہ سے ہم سب کو سبق لینے کی ضرورت ہے ،ہم سب مختلف دور دراز مقامات سے حصول علم کے لیے اس بستی میں وارد ہوئے ہیں ،گھربار عزیز واقارب سے دوری اور مشاغل دنیوی سے کنارہ کشی کا بس ایک ہی مقصد ہے کہ ليتفقهوا فى الدين تاکہ آج ہم اپنا جائزہ لیں کیا واقعی جس مقصد کے لیے اس مرکز علم میں پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں سنجیدہ ہیں یا لاابالی پن میں زندگی کٹ رہی ہےدین کی گہری بصیرت حاصل کریں
Category: Islamic Topics
گمراہ شخصیات کا مطالعہ : شیخ سرفراز فیضی
*گمراہ شخصیات کا مطالعہ*✿✿✿*✍🏻سرفراز فیضی*✿✿✿طالب علمی کے زمانے سے یہ مشاہدہ رہا ہے کہ جن طلبہ کو گمراہ شخصیات کے لٹریچر کا چسکا لگ جاتا ہے ان کا دل نہ درسی کتابوں میں لگتا ہے نہ متقدمین علماء کی کتابوں میں ان کی دلچسپی باقی رہ جاتی ہے، ایسے لوگ ادیبانہ تعبیروں سے لذت کشید کرکے ادب خوانی کی اپنی وقتی طلب کو تسکین تو دے لیتے ہیں لیکن فقہ وفہم کی گہرائی ان میں پیدا نہیں ہوپاتی، ایسے لوگ ایک مفکرانہ قسم کا مصنوعی رعب خود پر طاری کرکے لفظوں سے کھیلنا تو سیکھ جاتے ہیں لیکن سلف کی کتابوں سے کلام میں جو وزن پیدا ہوتا ہے یہ اس سے ہمیشہ محروم رہتے ہیں، ان کی باتوں میں سطحیت ہوتی ہے ، پھکڑ پن ہوتا ہے، ان کا مطالعہ ذوالجہات تو ہوتا ہے لیکن عمیق نہیں ہوتا، یہ لفظوں کے جادوگر اور معنیٰ کے فقیر ہوتے ہیں، ان پاس الفاظ کی بہتات ہوتی ہے اور معانی کا افلاس، ان کے کلام میں حسن تو ہوتا ہے پر تجزے میں گہرائی اور نظر میں وسعت نہیں ہوتی، ان کے مطالعے کا مقصد قرأت ادب کی اپنی وقتی شہوت کو تسکین دینا ہوتا ہے اس لیے ان کی لذت نفس ان کو مختلف وادیوں میں لے کر گھومتی ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ ہر فن میں سطحی سی باتیں تو کرلیتے ہیں لیکن کسی فن میں تخصص اور مہارت پیدا نہیں کرپاتے، ایسا مطالعہ وقتی شہوت کو تسکین تو پہنچا سکتا ہے رہنمائی نہیں کرسکتا ۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ان کے یہاں قبولیت ورد کا معیار بگڑ جاتا ہے، یہ دلیلوں کے وزن نہیں کلام کے حسن کی بنیاد پر باتوں کو قبول یا رد کرنے لگتے ہیں، ان کا بہکنا آسان ہوجاتا ہے اور یہ جب یہ بہکتے ہیں تو امت کے لیے بھی فتنہ بن جاتے ہیں، اسی لیے اللہ کے رسول نے فرمایا مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ خوف “منافق علیم اللسان” کا ہے۔ یعنی ایسا منافق جو ادیب بھی ہو۔
لکڑی کی تلوار : سرفراز فیضی
لکڑی کی تلوار
✿✿✿
✍🏻 سرفراز فیضی
✿✿✿
جب اختلافات رونما ہوئے تو کچھ صحابہ دو فریقوں میں ایک فریق بن گئے اور بیشتر صحابہ ان اختلافات سے کنارہ کش رہے ، ابن سیرین فرماتے ہیں “جب فتنے واقع ہوئے تو دس ہزار سے زائد صحابہ با حیات تھے لیکن ان اختلافات میں شریک ہونے والے صحابہ سو تھے بلکہ تیس صحابہ بھی اس میں شریک نہیں ہوئے. (السنہ لابی بکر الخلال)
امام شعبی کہتے ہیں کہ جنگ جمل میں مہاجرین وانصار صحابہ میں سے صرف حضرت علی، عمار ، طلحہ اور زبیر شریک ہوئے (رضی اللہ عنھم اجمعین)، اگر کوئی پانچویں کا ثبوت دے دے تو میں کذاب ہوں۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ)
جو لوگ شریک ہوئے ان میں سے کئی اس پر نادم تھے۔
حضرت علی جب صفین سے لوٹے تو فرمایا : اے حسن اے حسن ! تمھارے باپ کو پتہ نہیں تھا کہ معاملہ یہاں تک پہنچ جائے گا، کاش میں اس سے بیس سال پہلے مر گیا ہوتا۔ ( منہاج السنہ)
جو صحابہ ان اختلافات میں فریق بنے ان کا اپنا اجتہاد تھا، جو ان میں درستگی پر تھے ان کے لیے دو اجر ہیں اور جن سے خطا ہوئی ان کے لیے بھی ایک اجر ہے۔ یہی اہل سنت کا اجماعی موقف ہے اور یہی ان صحابہ کا بھی موقف تھا ۔
قیس بن عباد کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا: ہمیں آپ (معاویہ رضی اللہ عنہ سے جنگ کے لیے) اپنی اس روانگی کے متعلق بتائیے کہ آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حکم ہے جو انہوں نے آپ کو دیا ہے یا آپ کا اپنا خیال ہے جسے آپ درست سمجھتے ہیں، وہ بولے: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی حکم نہیں دیا بلکہ یہ میری رائے ہے۔
( سنن ابی داؤد: 4666، قال الالبانی صحیح الاسناد)
جو صحابہ ان اختلافات سے کنارہ کش رہے ان کے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان اختلافات سے کنارہ کش رہنے کی صریح ہدایات موجود تھیں۔ عدیسہ بنت اہبان کہتی ہیں کہ جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ بصرہ کی طرف سے آئے تو میرے باپ کے پاس آئے اور کہا: ابو مسلم! کیا تم ان لوگوں کے خلاف میری مدد کرو گے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، پھر اپنی لونڈی کو بلایا اور کہا: لونڈی! میری تلوار نکال لاؤ۔ وہ تلوار لے آئی۔ انہوں نے ایک بالشت کے بقدر تلوار (میان سے) نکالی، وہ لکڑی کی تلوار تھی۔ پھر کہا: میرے دوست اور تیرے چچازاد (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) نے مجھے یہ وصیت کی تھی: ”جب مسلمانوں میں فتنے ابھر آئیں گے تو لکڑی کی تلوار بنا لینا۔“ اب اگر تم چاہتے ہو تو میں (یہ لکڑی کی تلوار لے کر) تمہارے ساتھ آ جاتا ہوں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے تیری اور تیری تلوار کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
(سنن ترمذی: 3960, سنن ابن ماجہ :3690 ، قال الالبانی حسن صحیح)
ایسی صورت حال میں سب سے محفوظ یہی جمہور صحابہ کا طبقہ تھا جو قاعدین میں تھا اور اختلافات سے کنارہ کش تھا،
خود حضرت علی فرمایا کرتے تھے کہ عبداللہ ابن عمر اور سعد مالک کا موقف بہت ہی اچھا تھا، اگر ان کا کنارہ کش ہونا نیکی تھا تو اس نیکی کا اجر بڑا عظیم ہے اور اگر گناہ تھا تو اس کا خطرہ بہت ہلکا ہے۔ ( منہاج السنہ)
ایسی صورت حال میں ایسے فتنہ پرور کتنے بڑی فراڈی ہیں جو اس کنارہ کش رہنے والے صحابہ کے تیسرے گروہ کو گول کر جاتے ہیں، ان کا سرے سے ذکر ہی نہیں کرتے اور جذباتی انداز میں پوچھتے ہیں کہ اس دور میں تم ہوتے تو علی کا ساتھ دیتے یا معاویہ کا۔
ہمارا جواب ہونا چاہیے کہ ہم وہی کرتے تو جو ان قاعدین صحابہ کرام نے کیا ، فتنوں کے وقت کنارہ کشی ۔
کیا ہی عظیم بات ہے جو حضرت عمر ابن عبد العزیز فرما گئے کہ ” یہ اللہ کا فضل ہے کہ اللہ نے ہماری تلواروں کو صحابہ کے خون سے محفوظ رکھا تو اب ہم اپنی زبانوں کو ان کے ذکر شر سے محفوظ رکھیں گے”
انتہائی گھٹیا اور ظالم ہے وہ شخص جو کہتا ہے کہ میں اپنی تلوار حضرت معاویہ پر رکھ دیتا ، ایسی بات کوئی زندیق اور متھم الاسلام ہی کہہ سکتا ہے۔
(سرفراز فیضی )
نشر_مکرر
تراویح اور اہم معلومات : شیخ عبد البر مدنی حفظہ اللہ
شیخ عبد البر مدنی حفظہ اللہ کی تراویح کے متعلق ایک مختصر، معتدل ونہایت مفید تحریر•••••••••••••••••••••••••••••••••••••قیام اللیل – قیام رمضان1. صلاۃ اللیل، قیام اللیل، صلاۃ تہجد، وتر (بعض نصوص میں) اسی طرح رمضان کے مہینہ میں قیام رمضان اور صلاۃ تراویح (بعد کے ادوار میں) یہ سب در حقیقت ایک ہی صلاۃ کے مختلف نام ہیں جو رات میں صلاۃ عشاء کے بعد اور وقت فجر سے پہلے ادا کی جاتی ہے.اسی وجہ سے جب ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا تھا :كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان ؟ تو انہوں نے جواب دیا: ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزيد في رمضان ولا في غيره على إحدى عشرة ركعة.(صحیح بخاری 1147)جس سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے مہینہ میں قیام رمضان یا صلاۃ تراویح کے نام سے کوئی اضافی صلاۃ نہیں ادا کیا کرتے تھے.2. قیام اللیل یا قیام رمضان کا وقت صلاۃ عشاء کے بعد سے طلوع فجر سے پہلے تک ہوتا ہے. عن علي رضی اللہ عنہ قال : من كل الليل قد أوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم من أوله، وأوسطه، وانتهى وتره إلى السحر. (سنن ابن ماجہ 1186)وعن عائشة رضی اللہ عنہا قالت : كل الليل أوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم وانتهى وتره إلى السحر. (صحیح بخاری 996)3. صلاۃ اللیل کا افضل وقت رات کا آخری پہر ہے.عن عبد الرحمن بن عبد القاري أنه قال: خرجت مع عمر بن الخطاب رضي الله عنه ليلة في رمضان إلى المسجد، فإذا الناس أوزاع متفرقون، يصلي الرجل لنفسه، ويصلي الرجل فيصلي بصلاته الرهط، فقال عمر : إني أرى لو جمعت هؤلاء على قارئ واحد لكان أمثل. ثم عزم فجمعهم على أبي بن كعب، ثم خرجت معه ليلة أخرى والناس يصلون بصلاة قارئهم، قال عمر : نعم البدعة هذه، والتي ينامون عنها أفضل من التي يقومون. يريد آخر الليل، وكان الناس يقومون أوله. (صحيح بخاري 2010)وعن أبي هريرة رضی اللہ عنہ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ” ينزل ربنا تبارك وتعالى حين يبقى ثلث الليل الآخر كل ليلة، فيقول: من يسألني فأعطيه ؟ من يدعوني فأستجيب له ؟ من يستغفرني فأغفر له ؟ حتى يطلع الفجر “. فلذلك كانوا يستحبون صلاة آخر الليل على أوله. (سنن ابن ماجہ 1366)4. صلاۃ اللیل کی رکعات کی کوئی متعین تعداد نہیں جس میں کمی اور بیشی کی گنجائش نہ ہو. ابن عبد البر فرماتے ہیں : “لا خلاف بين أهل العلم أن صلاة الليل ليس له حد محدود، بل هو فعل خير وعمل بر، فمن شاء استقل ومن شاء استكثر. ” التمهيدنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قیام اللیل کبھی سات کبھی نو کبھی گیارہ اور کبھی تیرہ رکعات ادا فرمایا کرتے تھے، البتہ آپ کا عمومی معمول گیارہ رکعات کا تھا. اس تعلق سے چند احادیث ملاحظہ ہوں :عن مسروق قال : سألت عائشة رضي الله عنها عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم بالليل، فقالت : سبع وتسع، وإحدى عشرة، سوى ركعتي الفجر. (صحیح بخاری 1139)عن عبد الله بن أبي قيس قال : قلت لعائشة رضي الله عنها : بكم كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يوتر ؟ قالت : كان يوتر بأربع وثلاث، وست وثلاث، وثمان وثلاث، وعشر وثلاث، ولم يكن يوتر بأنقص من سبع، ولا بأكثر من ثلاث عشرة. (سنن ابى داود 1362)عن أبي سلمة بن عبد الرحمن أنه سأل عائشة رضي الله عنها : كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان ؟ فقالت : ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزيد في رمضان ولا في غيره على إحدى عشرة ركعة، يصلي أربعا فلا تسأل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي أربعا فلا تسأل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي ثلاثا. (صحيح بخاری 1147)مذکورہ تینوں احادیث ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہیں جن سے یہ واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ صلوات خمسہ کی متعینہ رکعات کی طرح سے صلاۃ اللیل کی رکعات کی تعداد متعین نہیں جس میں کمی بیشی کی گنجائش نہ ہو. اسی وجہ سے اسلاف کے یہاں اس سلسلہ میں مختلف معمول رہا ہے.امام ترمذی رحمہ اللہ قیام رمضان کے تعلق سے فرماتے ہیں : رأى بعض أهل العلم أن يصلي إحدى وأربعين ركعة مع الوتر وهو قول أهل المدينة والعمل على هذا عندهم بالمدينة. اور امام شافعی وغیرہ ائمہ سے بیس کا قول نقل کر کے فرماتے ہیں : وقال الشافعي: وهكذا أدركت ببلدنا بمكة يصلون عشرين ركعة. وقال أحمد : روي في هذا ألوان ولم يقض فيه بشيء. (سنن ترمذى كتاب الصوم باب ما جاء في قيام شهر رمضان)5. اس وقت مسلمانان عالم میں قیام رمضان میں معمول بہ آٹھ یا بیس رکعات ہیں، اور دونوں ہی فریق اپنے اپنے عمل کو افضل قرار دینے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور صرف کرتے ہیں ، آئیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند احادیث کی روشنی میں اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں :عن جابر رضي الله عنه قال : سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم ؛ أي الصلاة أفضل ؟ قال : ” طول القنوت “. (صحیح مسلم 756/165)عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما قال : قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم : ” أحب الصيام إلى الله صيام داود ؛ كان يصوم يوما ويفطر يوما، وأحب الصلاة إلى الله صلاة داود ؛ كان ينام نصف الليل ويقوم ثلثه وينام سدسه “. (صحیح بخاری 3420)اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بھی تقریباً ثلث لیل کا ہی تھا :عن كريب – مولى ابن عباس – أن عبد الله بن عباس أخبره أنه بات ليلة عند ميمونة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، وهي خالته، … فنام رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا انتصف الليل، أو قبله بقليل أو بعده بقليل، استيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم … ثم قام إلى شن معلقة فتوضأ منها فأحسن وضوءه ثم قام يصلي، قال ابن عباس : فقمت فصنعت مثل ما صنع، ثم ذهبت فقمت إلى جنبه … فصلى ركعتين، ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم أوتر، ثم اضطجع حتى أتاه المؤذن، فقام فصلى ركعتين خفيفتين ثم خرج فصلى الصبح. (صحیح بخاری 183)اب اگر کوئی گیارہ رکعات کے ساتھ ثلث لیل قیام کرتا ہے اور دوسرا بیس رکعات کے ساتھ ایک گھنٹہ قیام کرتا ہے اور رکعات کی زیادتی کی وجہ سے اپنی صلاۃ کو افضل تصور کرتا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہو گی. اسی طرح اگر کوئی بیس رکعات کے ساتھ ثلث لیل قیام کرتا ہے اور دوسرا گیارہ رکعات کے ساتھ ایک گھنٹہ قیام کرتا ہے اور اپنی صلاۃ کو افضل تصور کرتا ہے تو وہ بھی بعید عن الصواب ہے، کیونکہ فرمان نبوی ہے: “أفضل الصلاة طول القنوت” اور “أفضل الصلاة صلاة داود” – ثلث الليل -اب اگر کوئی دونوں کو ایک ساتھ جمع کر لیتا ہے (یعنی ثلث لیل، طول قنوت اور سات، نو، گیارہ یا تیرہ رکعات) تو اس کے افضل ترین ہونے میں شبہہ نہیں ہونا چاہئے. هذا ما تبين لي والله أعلم بالصوابكتبه: عبد البر بن حقيق الله مدنیاستاد حدیث جامعہ اسلامیہ سنابل، دہلی
اہل توحید کی خوش قسمتی: سرفراز فیضی
اہل توحید کی خوش قسمتی
✿✿✿
✍🏻 سرفراز فیضی
✿✿✿
کافر کی ساری عبادتیں ، ساری عقیدتیں، سب قربانیاں جو وہ اپنے جھوٹے معبودوں پر نچھاور کر رہا ہے سب ضائع جارہی ہیں، قیامت کے دن وہ اٹھے گا تو سر پیٹ لے گا، جب اس کو پتہ چلے گا کہ جن جن جھوٹے معبودوں سے امیدیں لگا کر رکھی تھیں یہاں تو کوئی کام نہیں آنے والا، ساری تپسیائیں ضائع چلی گئیں، پوری زندگی محنتیں برباد ہوگئیں، ساری عقیدتوں پر پانی پھر گیا۔ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ
غائب ہوجائیں گے وہ سارے جھوٹے معبود جو انہوں نے گھڑ رکھے تھے۔
اور تم اے اہل توحید! کتنے خوش نصیب ہو تم ، تمھارا تو ایک ایک سجدہ کاؤنٹ ہورہا ہے، ایک ایک تسبیح لکھی جارہی ہے، ایک ایک روپیہ جو اللہ کے راہ میں دے رہو قبول ہی نہیں ہورہا بڑھایا بھی جارہا ہے۔
تم اٹھوگے تو دیکھو گے کے سب کے معبود ان سے پلے جھاڑ رہے ہیں اور تمھارا معبود فیصلے سنا رہا ہے، جنت بانٹ رہا ہے، کیا ہی سرخروئی کا مقام ہوگا وہ تمھارے لیے۔
جب سب کا سب کچھ لٹ گیا ہوگا جو انہوں نے آگے بھیجا تمھارا سب کچھ آگے بھیجا ہوا نہ صرف یہ کہ بچا ہوگا بلکہ بڑھا دیا گیا ہوگا۔
واللہ ! توحید کتنی بڑی نعمت ہے۔
واللہ ! شرک کتنی بڑی نحوست ہے۔
قُلْ إِنَّ الْخَاسِرِينَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ أَلَا ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ ﴿الزمر:١٥﴾
کہہ دو کہ حقیقت میں خسارہ اٹھانے والے وہی لوگ ہیں جنہوں نے قیامت کے دن اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو خسارے میں ڈالا۔ جان لو کہ یہ کھلم کھلا خسارہ ہے۔
(سرفراز فیضی)
شیخ سرفراز فیضی کی مزید تحریری واٹس اپ پر حاصل کرنے کے لیے ان کا واٹس اپ گروپ جوائن کریں۔ اس لنک سے 👇
https://chat.whatsapp.com/JYVCeBFEp6FHBlLGuBMI1p
Online Teacher
احباب گرامی قدر! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عرض تحریر اینکہ میں ایک تجربہ کار اور سند یافتہ استاد ہوں، میں مکمل قرآن کا حافظ ہوں۔ میں نے عالمیت و فضیلت ہندوستان میں مکمل کی ہے اور میں کنگ سعود یونیورسٹی ریاض سعودی عرب سے عربی زبان میں ٹیچر ٹریننگ کورس مکمل کیا ہے۔ میرے پاس اسلامیات میں اچھی مہارت، اچھا تجربہ اور اچھا علم ہے اور میں صحیح تلفظ (تجوید) کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت، حدیث، فقہ، تفسیر، اردو، ہندی اور عربی کو ابتدائی سے اعلی درجے تک سکھا سکتا ہوں۔ مجھے اپنے کسی بھی عمر کے طالب علموں کو انتہائی سادہ اور مؤثر طریقے سے پڑھانے کا جذبہ ہے۔ اگر آپ میرے ساتھ سیکھتے ہیں تو براہ کرم مجھ سے واٹس ایپ پر رابطہ کریں یا مجھے (918700890985+) کے ذریعے میسج کریں میں 3 دن کی مفت کلاسز (ڈیمو کلاسز) کروں گا، تاکہ آپ میرے بارے میں فیصلہ کریں۔ شکریہ آپ کا بھائی: عبدالعظیم
Hello dear Friends !Assalaamu Alaikum Wa Rahmatullah I am an experienced and certified teacher, I am Hafiz of complete Quran. I have completed Alim and Fazil course in India and I have completed teacher Training course in Arabic Language from King Saud University Riyadh Saudi Arabia. I have good skills, good experience and good knowledge in Islamiyat and I can teach the Quran with proper pronunciation ( tajweed), Hadees, fiqah, tafseer, Urdu, Hindi & Arabic from beginner to advanced level.I have passion to teach to my students of any age in a very simple and effect way. If you learn with me please contact me on whatsApp or message me through ( +918700890985 ) I will take on 3 days free classes/demo classes, so that you will decide about me.Thank you Abdul Azim
روزہ کی حقیقت ،حکمت ،وفوائد اور چند مشہور غلطیاں ، از قلم : محمد محب اللہ بن محمد سیف الدین المحمدی ، سپول ،بہار
، عربی لغت میں روزہ کو ’’الصوم‘‘ کہتے ہیں جو باب صام یصوم وصیاما سے مصدرہے، اس لفظ کا مادہ ص۔ و۔ م اور صوم کا لغوی معنی ہے ”کام سے رُک جانا” کسی جگہ پر ٹھہر جانا۔ کھانے پینے، گفتگو کرنے اور چلنے سے رک جانے کو بھی صوم کہتے ہیں۔ لغوی معنی کے لحاظ سے ”صوم” کا اطلاق صرف روزے پر ہی نہیں ہوتا بلکہ عربی میں کہتے ہیں۔ صامت الریح ہوا تھم گئی۔ صام النھار ظہر کا وقت ہو گیا (کیونکہ اس وقت آفتاب نصف النہار پر رکا ہوتا ہے۔) اس سے پھر ”صامت الشمس” بھی کہا جاتا ہے یعنی سورج نصف النہار پر مرکوز ہے۔ لہٰذا ”صوم الصائم” سے مراد کھانے پینے اور ان تمام امور سے باز آجانا ہے جن سے اسے منع کیا گیا ہو۔ گفتگو سے رک جانے کو بھی ”صوم” ہی کہتے ہیں۔ سورۂ مریم میں ہے:﴿إِنّى نَذَرتُ لِلرَّحمـٰنِ صَومًا…٢٦﴾… سورة مريم”(کہ بے شک میں نے خدا کی رضا کی خاطر چپ کا روزہ رکھا ہے)اور ساتھ ہی تشریح بھی کر دی:﴿فَلَن أُكَلِّمَ اليَومَ إِنسِيًّا ﴿٢٦﴾… سورة مريم” (کہ میں آج کسی انسان سے بات نہ کروں گی)قرآن مجید ہی سے ثابت ہے کہ حضرت مریم ؑ کا وہ روزہ کھانے پینے سے رُک جانے کا نہ تھا کیوں کہ اس سے پہلے خود خدا وند کریم کی طرف سے انہیں حکم ہوا تھا:﴿فَكُلى وَاشرَبى﴾ (کھجوریں کھا اور چشمے کا پانی پی، ہاں اگر کوئی آدم زاد آئے تو کہہ دینا میں نے خدا کی رضا کے لئے چپ کا روزہ رکھا ہے۔”عربی میں بعض اوقات ”قائم” کو ”صائم” بھی کہتے ہیں اس لئے کہ وہ اپنی جگہ پر ساکت ہوتا ہے۔ نابغہ کا ایک شعر ”صوم” کے اس لغوی معنی کو واضح کرتا ہے:خَیْلٌ صِيَامٌ وَّ خَيْلٌ غَيْرُ صَائِمَةٍ تَحْتَ الْعَجَاجِ وَخَيْلٌ تَعْلُكُ اللُّجَمَاغبار جنگ كے سایے تلے کچھ گھوڑے ثابت قدم (صائم) ہیں اور کچھ گھوڑے حرکت کرتے ہوئے (غیر صائمہ) اپنی لگاموں کو چبا رہے ہیں،اس ساری بحث سے یہ نتیجہ منتج ہوا کہ صوم کا لغوی معنی ہے ”کام سے رک جانا” خواہ وہ کسی نوعیت کا ہو۔اصطلاح شریعت میں صوم کی تعریف اس طرح کی جاسکتی ہے:’’الامساک عن المفطرات مع اقترانہ النیۃ من طلوع الفجر الی غروب الشمس‘‘ (تفسیر قرطبی (۱/۶۵۰)فتح البیان فی مقاصد القران(۱/۳۶۲)’’یعنی طلوعِ فجر سے لیکر غروبِ آفتاب تک تمام مفطرات سے اس طرح رک جانا کہ (مکمل روزے کی ) نیت شاملِ حال رہے‘‘روزہ کب فرض ہواروزہ ایک ایسی عبادت ہے جو ہر نبی اور اس کی امت پر فرض کی گئی ،کوئی امت روزہ کی فرضیت سے خالی نہیں رہی، اللہ تعالیٰ کا فرمان :{ کَمَاکُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ} (البقرۃ:۱۸۳) } اس کی دلیل ہے۔ امام مجاہد کا قول ہے:’’کتب اللہ عزوجل صوم شھر رمضان علی کل أمۃ‘‘یعنی( اللہ تعالیٰ نے رمضان کا روزہ ہر امت پر فرض کیا تھا۔) (تفسیر قرطبی۱/۶۵۱) اللہ تعالیٰ نے سابقہ تمام امتوں پر روزہ فرض قرار دینے کی خبر ہمیں اس لئے دی تاکہ ہماری نظروں میں اس کی اہمیت اور قدرومنزلت مزید بڑھ جائے،مزید رغبت پیدا ہوجائے ،نیز یہ کہ روزہ آسان لگنے لگے؛کیونکہ کوئی بھی مشکل چیز جب عمومیت اختیار کرجائے تووہ آسان ہوجاتی ہے۔ہمارے روزے کو سابقہ اقوام کے روزے سے تشبیہ دینا باعتباراصلِ وجوب ہے، یعنی جس طرح سابقہ اقوام پر روزہ فرض تھا اسی طرح ہم پر بھی فرض ہے یہ تشبیہ باعتبار کیفیت ِ صوم نہیں ہے؛کیونکہ ہمارے اور سابقہ اقوام کے روزہ کی کیفیت میں فرق تھا، چنانچہ ان کا ر وزہ عشاء کی نماز سے شروع ہوکر غروبِ آفتاب تک جاتا،جبکہ ہمارار وزہ ابتداء فرضیت میں اسی طرح تھا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے آسانی پیدافرماتے ہوئے طلوعِ فجر سے غروبِ آفتاب تک مقرر فرمادیا۔سابقہ اقوام نے اپنے روزہ کے ساتھ اچھا سلوک نہ کیا ،چنانچہ یہودیوں نے رمضان المبارک کی جگہ روزے کیلئے پورے سال کا صرف ایک دن مقرر کرلیا،جو ان کے زعم میں فرعون کے غرق ہونے کا دن تھا،جبکہ عیسائیوں نے جب یہ دیکھا کہ رمضان المبارک تو شدید گرمی کے موسم میں آتا ہے تو انہوں نے قمری مہینہ کی جگہ ایک ایسا شمسی مہینہ تجویز کرلیا جو ہمیشہ موسمِ بہار میں آئے۔قولہ تعالیٰ:{اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ أَرْبَا بًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ}(التوبہ :۳۱)ترجمہ:(ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایاہے) میں یہود ونصاری کی اس قسم کی باطل روش کی تفنید وتردید ہے۔اس لحاظ سے امت محمدیہ بے شمار آفرین اور شاباش کی مستحق ہے کہ جس نے سابقہ اقوام کی روش کے بالکل برعکس روزے کا حق ادا کردیا،اور کسی بھی مقام پر کسی بھی موسم کی شدت یا روزے کی طوالت ان کے آڑے نہ آسکی اور نہ ہی کسی قسم کی رکاوٹ بن سکی (فللّٰہ الحمد والمنۃ)،اُمتِ محمد یہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ر و ز ہ کب فرض ہوا؟اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت پرپیر کے دن ۲ شعبان ۲ھ میں روزہ فرض فرمایا،گویا رسول اللہ کی بعثت کے پندرھویں سال روزے کی فرضیت نازل ہوئی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ ومبارکہ میں نو مرتبہ رمضان کا مہینہ آیا۔روزے کی فرضیت میں اسقدر تاخیر کا سبب بیان کرتے ہوئے علامہ جمال الدین القاسمی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:’’ ولما کان فطم الناس عن مألوفاتھا وشھواتھامن أشق الأموروأصعبھا تأخر فرضہ إلی وسط الاسلام بعد الھجرۃ لما توطنت النفوس علی التوحید والصلاۃ وألفت أوامر القرآن ،فنقلت إلیہ بالتدریج…‘‘(محاسن التأویل۳/۴۱۶) ’’ چونکہ کھانا پینا اور دیگر شہوات کا ترک لوگوں کیلئے انتہائی مشکل اور دشوار امر ہے، لہذا اللہ تعالیٰ نے (ازراہِ شفقت ومحبت ) روزے کی فرضیت کو ہجرت کے بعد تقریباً وسط اسلام تک مؤخر رکھا،چنانچہ لوگوں کے نفوس اور طبائع توحید اور اقا متِ صلاۃ پر پختہ ہوگئے ،اور وہ اوامرِقرآن سے خوب مانوس ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے روزہ کی فرضیت نازل فرمادی،اور اس میں بھی تدریج کا پہلو پسند فرمایا(تاکہ اس عظیم عبادت کی ادائیگی میں کسی کوتاہی کا مظاہرہ نہ ہونے پائے )‘‘( منقول ازکتاب، روزہ حقیقت وثمرات صفحہ نمبر 18 تا 24)روزہ کے حِکَمْ ومقاصدعلماء کرام نے روزہ کی بہت سی حکمتیں بیان فرمائی ہیں،لیکن سب سے بڑی حکمت اورسب سے ارفع وا علیٰ مقصدوہ ہے جس کا اللہ رب العزت نے اپنے مقدس کلام میں ذکر فرمایا ہے:{ یَاأَ یُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَاکُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ} (البقرۃ:۱۸۳) ترجمہ:(اے ایمان والو!تم پرروزے رکھنا فرض کیا گیاجس طرح تم سے پہلے لوگوں پر (صوم)فرض کیاگیاتھاتاکہ تم تقویٰ اختیار کرو)اس آیت میں روزہ کی حکمت یہ بیان فرمائی کہ یہ تقویٰ کا باعث ہے جس کی تفصیل یوں ہے کہ روزہ دوسری تمام عبادات سے بوجوہ منفرد ہے کہ یہ رب اور بندے کے درمیان راز و نیاز کا معاملہ ہے جبکہ دوسری تمام عبادات مثلاً نماز، حج اور قربانی وغیرہ ظاہری عبادات ہیں جو ظاہری حرکات و سکنات سے بے نیاز ہونے کے باعث ریا جیسی بیماری سے جو کہ بڑی بڑی عبادتوں پر پانی پھیر سکتی ہے۔ محفوظ و مامون ہے اس لئے کہ روزہ دار کے روزہ کی حقیقت (کہ وہ روزے سے ہے یا نہیں) رب تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر ایک آدمی وضو کرتے ہوئے تین دفعہ کلی کرتا ہے۔ اس وقت پانی اس کے منہ میں ہوتا ہے۔ وہ چاہے تو اس پانی کا اکثر حصہ اپنے حلق میں اتار سکتا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس کی اس حرکت کو نہیں دیکھ سکتی۔ لیکن ایک چیز اسے پانی کا ایک قطرہ بھی شدید پیاس کے باوجود حلق میں پانی اتارنے سے باز رکھتی ہے اور یہ چیز رب کریم کا خوف ہے جس کا دوسرا نام تقویٰ ہے کہ محض اللہ تعالیٰ کے ڈر سے اپنی خواہش پر اس نے غلبہ پالیا اور یہ تقویٰ (خواہشات پر کنٹرول) انسان کی ساری زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے مثلاً اگر وہ دوکاندار ہے تو میزان میں کمی بیشی کا مرتکب نہ ہو گا اگر کپڑے کا تاجر ہے تو ماپ میں ہیرا پھیری کی خواہش کا گلا گھونٹ دے گا۔ اگر کسی میڈیکل ہال کا مالک ہے تو دواؤں پر ناجائز منافع حاصل کر کے حصولِ زر کی خواہش کا احترام نہ کرے گا اور اگر ڈاکٹر ہے تو پانی میں رنگ ملا کر غریب مریضوں کا خون چوسنے اور اس طرح زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کی خواہش کا حصول اس کے لئے ناممکن ہو گا۔ علیٰ ہذا القیاس روزہ انسان کے نفس کی اس طرح سے تربیت کرے گا کہ ہر لمحہ خوفِ خدا اس کو گناہوں سے باز رکھے گا اوررضا ۓالٰہی کا حصول اس کا مقصود مطلوب ہو گی جو خداوند کریم سے اس کی قربت کا باعث بنے گی،محترم قارئین : جسدِ انسانیت سے مادیت کے طوفان ہر آن اُٹھتے رہتے ہیں اگر ان طوفانوں کے سامنے بند نہ باندھا جائے تو یہ خاکی بدن ہویٰ و ہوس کا مظہر بن کر رہ جائے، خواہشاتِ نفسانی اس قدر سرکش اورغالب ہو جائیں کہ انسان ان پر کنٹرول نہ کر سکے۔ اور شہوات وشبہات کے دام فریب میں پھنس جاۓ ، لہٰذا رب کریم نے ضبطِ نفس اور مادیت کے غلبے سے بچانے کے لئے روزے جیسے عظیم عبادت کا انعام اسے عطا فرمایا تاکہ اس کی روح اور جسم میں توازن برقرار رہے اور نفسِ انسانی مطیع و منقاد ہو کر خدا کی یاد میں مگن رہے۔شیخ عبد اللہ آل بسام نے ’تیسیر العزیز العلام شرح عمدۃ الاحکام‘‘(۱/۴۲۱) میں انتہائی جامعیت کے ساتھ روزہ کی دینی،اجتماعی ،اخلاقی اور صحتِ انسانی کے متعلق کچھ حکمتیں بیان فرمائی ہیں،انہی کے نفیس کلام کا خلاصہ ملاحظہ کیجئے۔روزہ کی بلند ترین حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان عبادت ہے ،چنانچہ روزہ دار غلبہ شہوت کا قلع قمع کرتے ہوئے مکمل خشوع وخضوع کے ساتھ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہے،اور ظاہر ہے کہ نفسِ انسانی جب خوب سیر ہو تو اسے مستی سوجھتی ہے{کَلَّا اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰی۔أَنْ رَّاٰہُ اسْتَغْنٰی } ترجمہ:(سچ مچ انسان تو آپے سے باہر ہوجاتاہے،اس لئے کہ وہ اپنے آپ کو بے پرواہ (یاتونگر) سمجھتا ہے)(العلق:۶،۷)لیکن روزہ رکھ کر انسان جب بھوک اور پیاس کی شدت کی بناء پر اپنے عجز وضعف کو ملاحظہ کرتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ نفس کے کِبر اور بڑائی کی تو کوئی حقیقت نہیں،نتیجۃً وہ اپنے رب کیلئے بھی مسکین ورقیق القلب ہوجائے گا،اور مخلوقات کیلئے بھی نرم دل ۔روزہ کی اجتماعی حکمت یہ ہے کہ پوری خلق ایک ہی وقت میں ایک عبادت پر مجتمع ہوتی ہے ،چنانچہ خواہ کوئی طاقت ور ہویا کمزور،شریف ہو یا وضیع، مالدار ہویافقیر سب نے ایک ساتھ ہی روزہ شروع کرنا ہے اورایک ہی وقت میں افطار کرنا ہے ،سب نے اکٹھے بھوک اور پیاس کی تکلیف کو جھیلنا ہے …یہ چیز قلو ب وارواح میں باہمی ربط، الفت اور محبت پیدا کرنے کا عظیم سبب بن جائے گی،لوگ ایک دوسرے کے ساتھ شفقت ور حمت کا برتاؤ کرینگے،بالخصوص مالدار کہ جنہیں بھوک اور پیاس برداشت کرکے معاشرہ کے غریب،تباہ حال اور پسے ہوئے اپنے بھائیوں کی بھوک اور پیاس کا احساس ہوگا…وہ یہ بات سوچنے پر مجبور ہوگا کہ وہ بھوک اور پیاس جسے اس نے صرف ایک ماہ مشکل سے برداشت کیا ،اس کا غریب بھائی اور اس کا پورا کنبہ پورا سال برداشت کرتا اور جھیلتاہے،اس سے یقینا اس کے دل میں سخاوت کا احساس پیدا ہوگا،دلوں کی تفریق ،عداوتیں اور رنجشیں دور ہونگی،ان کی جگہ محبت اور بھائی چارہ کی فضاء استوار ہوگی،نتیجۃً تمام طبقاتِ انسانی میں وہ سلامتی رائج ہوجائے گی جو دینِ اسلام کو مطلوب ہے ۔روزہ کی اخلاقی وتربوی حکمت یہ ہے کہ صبر وتحمل کا درس دیتا ہے، عزیمت و اراد ہ کو قوت واستحکام بخشتا ہے، مشاکل ومصائب کا حملہ ہوتو خندہ پیشانی سے جھیلنے بلکہ ان کا مقابلہ کرکے انہیں زیر کرنے کی ٹریننگ دیتا ہے۔ روزہ صحتِ انسانی کے تعلق سے بڑی پُر حکمت عبادت ہے ،چنانچہ انسانی معدہ بیماریوں کا گھر ہے اورپرہیز (خلوِمعدہ) تمام دواؤں کی سردار ہے،معدے کو آرام وراحت کا وقفہ چاہئے،کیونکہ بلاناغہ اور مسلسل کھانے پینے کی وجہ سے وہ بُری طرح تھکاوٹ کا شکار ہوجاتا ہے،لہذا اس طویل ترین مشقت کے بعد اسے اس کے آرام کا مکمل حصہ دستیاب ہونا چاہئے تاکہ وہ استراحت کے اس وقفہ میں جسم سے زائد فضلات اور فاسد اخلاط کو جارج کرکے ،نیز جسم میں جمی ہوئی زائد چربی کو پگھلا کر ازسرِ نو ہضمِ طعام کیلئے فعال اور روادواں ہوجائے۔‘‘(انتہیٰ بتغیر یسیر)روزے کے مادی اور روحانی فوائد ،معزز قارئین! اسلامی عبادات میں ظاہری اور باطنی ہر قسم کی طہارت ،نفاست و پاکیزگی کا التزام ہر جگہ موجود ہے۔ نماز اگر آئینہ دل کو مجلّٰی اور مصفٰی کرتی ہے تو وضو جسمانی طہارت اور پاکیزگی کے لئے نماز کی اوّلیں شرط قرار پایا۔ اسی طرح اگر عورت کو نقاب اوڑھنے کا حکم دیا تو ساتھ قید بھی لگائی:﴿وَقُل لِلمُؤمِنـٰتِ يَغضُضنَ مِن أَبصـٰرِهِنَّ…٣١﴾… سورة النورکہ اے رسول ﷺ! مومن عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔اور یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ جس عورت کی نگاہ عصمت و عفت اور فطری حیا سے خالی ہے۔ اس کے لئے اگر لاکھ نقابوں کا اہتمام بھی کر لیا جائے تو وہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا جس کے لئے ”یغضضن من ابصارھن” کی ضرورت پیش آئی۔روزہ بھی اس حکمت سے خالی نہیں۔ روزہ سے جہاں انسان کی باطنی طہارت اور روحانی صحت کا التزام کیا گیا ہے وہاں اس کی جسمانی صحت اور نظامِ انہضام کی خرابیوں کا علاج بھی اس میں موجود ہے۔،پھر یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ کثرت خوری اور وقت بے وقت کھانا معدے کی امراض کا موجب ہیں۔ اس سے جسمانی نشوونما صحیح طریق پر نہیں ہوتی بلکہ غیر متناسب غذا اور کھانے کے غیر متعین اوقات کی بدولت اکثر لوگ لبِ گور پہنچ جاتے ہیں۔ سال بھر کی ان بے قاعدگیوں کو روکنے اور صحت اور تندرستی کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے کے لئے یہ لازم تھا کہ انسانوں کو تیس روز تک پابند کیا جاتا کہ وہ متعینہ وقت پر کھائیں پئیں اور مقررہ وقت کے بعد کھانے پینے سے ہاتھ کھینچ لیں۔ یہ کیسی حکمت ہے کہ عبادات کے ساتھ ساتھ انسان جسمانی صحت بھی حاصل کرتا ہے اور روح کی بالیدگیوں کے ساتھ ساتھ اس کی جسمانی صحت بتدریج کمال حاصل کرتی جاتی ہے۔ تجربہ شاہد ہے کہ رمضان میں اکثر لوگوں کی جسمانی بیماریاں محض کھانے کے اوقات کی پابندی کی بنا پر خود بخود دور ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ بڑے بڑے مفسرین اور ائمہ مجتہدین نے روزے کی دوسری حکمتوں کے ضمن میں حکمتِ صحتِ جسمانی کا ذکر بھی کیا ہے۔بسیار خوری سے مادیت کا غلبہ بڑھتا ہے اور شہوانی جذبات حملہ آور ہوتے ہیں۔ روزے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ دن بھر بھوکے پیاسے رہنے سے جسمانی اعضاء میں کچھ کمزوری آجاتی ہے جس سے شہوانی جذبات کے حملے ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔ بھوک اور پیاس جنسی جذبات کی برانگیخت کو کچل دیتے ہیں۔رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے:”الصوم جنة” کہ روزہ ڈھال ہے۔اس سے مراد صرف یہی نہیں کہ یہ صرف دوزخ کی آگ سے ڈھال ہے بلکہ اس سے یہ بھی مراد ہے کہ روزہ جنسی ہیجان نیز مادی او روحانی ہر قسم کی بیماریوں کے لئے ڈھال ہے اس طرح کہ بھوک پیاس اس کی جنسی خواہشات کو دبا کر اسے خداوند کریم کی طرف راغب کرتے ہیں۔ بخاری اور مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے:«یا معشر الشباب من استطاع منكم الباءة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحفظ للفرج ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإن له وجاء»کہ اے نوجوانو! تم میں سے جسے نکاح کرنے کی توفیق ہو اسے چاہئے کہ ضرور نکاح کرے، کیونکہ نکاح شرم و حیا اور شرمگاہ کی حفاظت کے لئے سب سے زیادہ مفید ہے اور جس نوجوان کو نکاح کی استطاعت نہ ہو اسے لازم ہے کہ وہ روزے رکھے کیونکہ روزہ جنسی ہیجان کا تدارک کرتا ہے۔تین طرح کے روزہ دار ، علامہ ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ نے روزے کے تین مراتب بیان فرمائے ہیں:(۱) عام لوگوں کا روزہ ۔(۲) خاص لوگوں کا روزہ۔(۳) خاص الخاص لوگوںکا روزہ۔عام لوگوں کا روزہ صرف پیٹ اور شرمگاہ کی خواہشات اور شہوات سے بچاؤ کا نام ہے ،خاص لوگوں کا روزہ پیٹ اور شرمگاہ کی خواہشات وشہوات سے بچاؤ کے ساتھ ساتھ ،نگاہ،زبان ہاتھ پاؤں ،کان اور دیگر اعضاء کو ہر قسم کے گناہ سے محفوط رکھنے کا نام ہے۔جبکہ خاص الخاص لوگوں کا روزہ یہ ہے کہ مذکورہ تمام امور کو ملحوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے قلب کو بھی اس قدر محفوظ بنالیں کہ اس میں ایسے افکار وخیالات کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے جو بندے کو اللہ تعالیٰ سے غافل کرنے یا دور کرنے کا سبب بن جائیں۔اب ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے آپ کو چیک کریں صرف دوسرے پر تبصرہ ہی نہ کرۓ کبھی کبھی اپنے آپ کا بھی حساب کتاب کیجئے کہ آپ ان مذکورہ بالا قسموں میں سے کس قسم میں آتے ہیں ، روزہ اور ہمارا طرزِ عمل، رمضان المبارک کا روزہ جن مقاصد حسنہ کی تحصیل کے لیے فرض کیاگیا تھا، ہمارے سلف صالحین نے روزہ کے آداب وواجبات ،مستحبات کی رعایت کرکے ان مقاصد کو پورے طور پر حاصل کیا۔ وہ حضرات دن کو روزہ رکھتے تھے اور راتوں کو ذکر وفکر اور نماز و تلاوت ،قرآن کی تفسیر وتشریح کو سمجھنے میں مشغول رہتے تھے اور رمضان المبارک کے ایک ایک لمحہ کو اللہ کی عبادت میں گذارتے تھے، وہ اپنی زبانوں کو بیہودہ گوئی سے بند رکھتے تھے اور کانوں کو لغو اور فحش باتوں کے سننے سے محفوظ رکھتے تھے، ان کی آنکھیں حرام چیزوں کی طرف قطعاً نہیں اٹھتی تھیں۔ اس طرح اُن کے تمام اعضاء روزہ سے رہتے تھے؛ لیکن آج ہمارا یہ حال ہے کہ ہم اس مبارک مہینہ کو بھی دیگر مہینوں کی طرح ضائع کردیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے روزہ کو اس لیے فرض کیاتھا کہ اس کے ذریعہ روح و قلب کو فائدہ پہنچے؛ ایمان میں تازگی آۓ ، محاسبہ کرنے کی عادت بناۓ ، مگر ہم نے روزہ کو پیٹ اور معدہ کو پُر کرنے کا مہینہ بنالیا۔ اللہ نے اُسے حلم و صبر کے حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا تھا؛ مگر ہم نے اُسے غیض وغضب اور غم وغصّہ کا مہینہ بنالیا ، اللہ تعالیٰ نے اُسے سکینت و وقار کا مہینہ بنایا تھا؛ مگر ہم نے اُسے گالی گلوج اور لڑائی جھگڑے سرپھٹول کا مہینہ بنالیا، اللہ تعالیٰ نے روزہ کو اس لیے فرض کیا تھا کہ ہماری عادتوں میں تبدیلی آئے؛ مگر ہم نے سوائے کھانوں کے اوقات میں تبدیلی پیدا کرنے کے کچھ نہیں کیا۔ع ببیں تفاوتِ رہ از کجاست تا بہ کجا، رمضان کے ایام میں ہم سے ہونے والی چند مشہور غلطیاں ، 1۔ افطار وسحور ، مأکولات ومشروبات کی خرید وفروخت میں حددرجہ مبالغہ آمیزی ! جب بھی رمضان کی آمد آمد ہوتی ہے بہتیرۓ مسلمان اشیاء خورد و نوش ،سحری ،افطارکے سامان دسترخوان کو بھانت بھانت کے مأکولات ومشروبات ،حلویات ، کھٹے میٹھے لذت آمیز چیزوں سے سجانے کی فکر لاحق ہوجاتی ہے ، ہزاروں کی شوپنگ ہوتی ہے ، بلکہ اسراف و تبذیر کا واضح عملی نمونہ موسم رمضان میں نظر آتا ہے ، آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ افطار وسحری کے لئے جتنے اہتمام سے مختلف کھانے پینے کی چیزیں زیب دسترخوان ہوتے ہیں اتنے میں تو فقراء وصعالیک کی ایک بڑی جماعت آسودہ ہوسکتی ہے ، 2 ۔ سحری تناول کرنے میں بعض لوگ افراط و تفریط کے شکار ہیں ، یعنی آدھی رات کو ہی کچھ لوگ کھاپی کر سوجاتے ہیں اور کچھ لوگ آذان کے ختم ہونے تک کھاتے پیتے رہتے ہیں ، 3 ۔ افطاری کرنے میں تاخیر،4 ۔ آذان فجر کے دوران بھی کھاتے پیتے رہنا ،5 ۔ افطار کے وقت دعاء نہ پڑھنا ، 6 ۔ افطار تناول کرنے میں مشغول رہنا اور آذان کاجواب نہ دینا ، 7 ۔ از راہ احتیاط طلوع فجر سے قبل ہی کھانا پینا چھوڑ دینا ، 8 ۔ نصف رات کو ہی سحری کھاکے سوجانا ،9۔ بھول کر حالت روزہ میں کھانے پینے والے کو دیکھنے والے کا نہ ٹوکنا یہاں تک کہ پورا ختم کردۓ ، 10۔ عورتوں کو کھان پان پکانے اور مطبخ کے کام میں ہی مشغول رکھنا ، یا درکھیں کہ رمضان کے اعمال و عبادات مثلاً: نماز، روزہ،صدقات و خیرات، تراویح، اذکار، تلاوت قرآن مجید، دعا و مناجات وغیرہ جیسے مردوں کے لیے ہیں اسی طرح عورتوں کے لیے بھی ہیں، ان اعمال کی ادائیگی پر جس طرح مردوں کو اجر و ثواب ملتا ہے اسی طرح خواتین کو بھی ثواب حاصل ہوتا ہے،11 ۔ مردوعورتوں کا صلاۃ مغرب کی ادائیگی میں تاخیر کرنا ، افطاری کے بعد سو جانا اور تراویح کی نماز نہ پڑھنا ، 12 ۔ صلاۃ فجر کی ادائیگی میں غفلت و کسلمندی سے کام لینا ، 13۔ رمضان کے ایام میں پورا دن سوتے رہنا ، 14۔ ماہ رمضان کو چھٹی کے ایام اور سیر وتفریح کے لمحات سمجھ کر گھومنے پھرنے اور موج مستی میں گزار دینا ، 15۔ رمضان کے روزے کو بوجھ سمجھنا ، اور طرح طرح کی باتیں بنانا ، مثلاً اتنا لمبا دن ، مختصر رات ،گرمی اپنے شباب پر ، تیس اونتیس دن تک ۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ، 16 ۔ ماہ رمضان میں نوجوانوں کا موبائل انٹرنیٹ و شوسل میڈیا کا حد سے زیادہ استعمال کرنا کہ وقت نہیں گزررہا ہے ، یہاں تک کہ بعض نوجوانوں کا تراویح چھوڑ کر آئی پی ایل میچ دیکھنا ، یا پب جی ولوڈو گیمس وغیرہ کھیلنا ، 17 ۔ شب قدر میں رات رات بھر وعظ کرنا ،وسننا ، یا رات نہ گزرے تو پارٹی وپکنک میں وقت ضائع کرنا ، 18 ۔ روزہ کی حالت میں بھی منشیات سگریٹ ،کھینی ،گُل وغیرہ کا استعمال کرنا ، محترم قارئین : روزہ ایک تربیتی مدرسہ ہے ، روزہ تقویٰ کا سبق دیتا ہے ، روزہ شہوات وشبہات کے فتنے سے بچنے کا راستہ بتاتا ہے ، روزہ سکھاتا ہے کہ ماضی کے غلطیوں کو نہ دہرایا جاۓ ، اور مستقبل حصول علم وعمل، دعوت وارشاد اور خدمت دین میں گزرے ،روزہ کا پیغام ہے کہ رذیل وخسیس حرکتوں سے اپنے آپ کو کیسے محفوظ رکھا جائے ،زندگی کیسی گذاری جاۓ، دنیا میں کیسے رہا جائے ،خواہشات پر قابو کیسے پایا جاۓ مچلتے نفس کو کیسے منایا جاۓ ۔ روزہ ایک مسلسل عبادت ہے اور روزہ دار سحری سے غروب آفتاب تک کا سارا وقت خدا کی عبادت میں بسر کرتا ہے۔ ایک نماز پڑھ لینے کے بعد ممکن ہے۔ آپ دوسری نماز تک یاد خدا سے غافل ہو جائیں۔ کاروبارِ حیات میں غفلت انسان کو خدا سے دور رکھتا ہے لیکن جب اس کے دل میں یہ احساس جاگ اُٹھتا ہے کہ وہ خدا کی خوشنودی کی خاطر بھوک پیاس کو برداشت کرنے کی پابندی قبول کر چکا ہے تو وہ اس کوشش میں رہتا ہے کہ اس کا کوئی بھی لمحہ یادِ خدا ،ذکر واوراد اور خیر و بھلائی سے غفلت میں بسر نہ ہو۔ چہ خوب ؎صرفِ عصیاں ہوا وہ لحظۂ عمرجو تری یاد میں بسر نہ ہوااللہ تعالیٰ ہمارے ظاہر وباطن کو پاکیزہ بناۓ ،تقوی کی زندگی نصیب کرۓ ،علم وعمل کی حیات دۓ ، ماہ رمضان کے خیر وبرکات کو سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ،
Teacheron
https://www.teacheron.com/tutor-profile/4tmc?r=4tmc
پندرہ شعبان کی رات میں کی جانے والی بدعات : شیخ عبد الخبیر سلفی
#پندر اس رات میں بہت ساری بدعات نکال لی گئی ہیں ان میں سے بعض کو مندرجہ ذیل سطور میں بیان کیا جا رہا ہے(1) پندرہ شعبان کو برات کی رات سمجھنا اس رات کے متعلق مسلمانوں میں بعض ضعیف اور موضوع روایات کی بنیاد پر عام رجحان یہ پایا جاتا ہے کہ یہ بخشش اور جہنم سے آزادی کی رات ہے اس لئے بڑے اہتمام کے ساتھ جوق در جوق شب بیداری کی جاتی ہے اور ہجوم کی شکل میں قبرستانوں کی زیارت کی جاتی ہے، بڑے زور و شور کے ساتھ گھروں اور قبرستانوں میں چراغاں کیا جاتا ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح احادیث میں صرف اتنا ہے کہ اللہ تعالی اس رات میں مشرک اور کینہ توز کے علاوہ سب کو معاف کر دیتا ہے چنانچہ حدیث میں ہے عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ رضی اللہ عنہ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” إِنَّ اللَّهَ لَيَطَّلِعُ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَيَغْفِرُ لِجَمِيعِ خَلْقِهِ إِلَّا لِمُشْرِكٍ أَوْ مُشَاحِنٍ ” (إبن ماجہ :1390)ترجمہ: حضرت ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی نصف شعبان کی رات جلوہ افروز ہوتا ہے پس اپنی ساری مخلوق کو بخش دیتا ہے سوائے مشرک اور کینہ پرور کےاس روایت میں زیادہ سے زیادہ اس رات اللہ کی عام بخشش کا ذکر ہے جو اس میں کی جانے والی کسی خاص عبادت سے مشروط نہیں ہے اور نا ہی اس بنیاد پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح روایات کے مطابق کبھی بھی خصوصیت کے ساتھ رت جگا کیا اور نا ہی صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس کی ترغیب دلائی شیطان کی چالیں بھی بڑی عجیب ہیں اس نے اس رات میں جس کی عبادت کا ثبوت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت بھی نہیں مصنوعی عبادتوں میں لگا کر مسلمانوں کو ان راتوں سے غافل کر دیا جن میں اللہ اپنے بندے کو آواز لگا لگا کر عبادت کے لئے پکارتا ہے حدیث میں ہے عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ، يَقُولُ : مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ ؟ مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ ؟ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ ؟ “حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ ہمارا رب آسمان دنیا پر ہر رات نزول فرماتا ہے جب آخری تہائی رات باقی رہ جاتی ہے اور اعلان کرتا ہے، ہے کوئی مجھے پکارنے والا میں اس کی پکار سنوں؟ ہے کوئی مجھ سے سوال کرنے والا میں اس کو عطا کروں؟ ہے کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اس کو بخش دوں؟ چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ آج کا جاہل اور بدعت کا دلدادہ مسلمان اسی رات کی عبادت کو اپنے لئے کافی سمجھتا ہے حتی کہ اس کو فرائض کی بھی پرواہ نہیں ہے جہاں تک قبرستان کی زیارت کی بات ہے تو اس رات میں خصوصی زیارت پر دلالت کرنے والی روایات درجہ صحت کو نہیں پہنچتی اور نا اس لائق کہ ہیں کہ ان سے دلیل پکڑی جائے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلا شعبان کی راتوں کی قید کے حسب موقع قبرستان کی زیارت کو جاتے تھے اور ہمیں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی إتباع میں زیارت قبور کرنا چاہیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں ” كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – كُلَّمَا كَانَ لَيْلَتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَخْرُجُ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ إِلَى الْبَقِيعِ، فَيَقُولُ : ” السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَأَتَاكُمْ مَا تُوعَدُونَ غَدًا مُؤَجَّلُونَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَهْلِ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ ” (مسلم :974) یعنی جب کبھی نبی صلی کی باری ان کے یہاں ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری پہر میں جنت البقیع چلے جاتے، پس وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے اور کہتے” السلام علیکم دار قوم مؤمنين…….، اس حدیث سے معلوم ہو رہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کے وقت زیارتِ قبور کی عام عادت تھی اس میں شعبان کی کوئی خصوصیت نہیں ہے یہاں بھی شیطان کی ہوشیاری ملاحظہ فرمائیں کہ اس نے اہل بدعت کو کس طرح ہر رات کی سنت نبی سے ثابت شدہ زیارت قبور اور نفع بخش دعا سے محروم کردیا اور صرف ایک رات کی بدعات و خرافات سے لبریز مزعومہ عبادت میں مست کر دیا ہے جو سنت نبی کے خلاف ہونے کے باعث سراسر خسارے کا سبب ہے! فانا للہ و انا الیہ راجعون۔۔۔۔۔۔۔۔باقی آئندہ