Posted on Leave a comment

پندرہ شعبان کی رات میں کی جانے والی بدعات : شیخ عبد الخبیر سلفی

#پندر اس رات میں بہت ساری بدعات نکال لی گئی ہیں ان میں سے بعض کو مندرجہ ذیل سطور میں بیان کیا جا رہا ہے(1) پندرہ شعبان کو برات کی رات سمجھنا اس رات کے متعلق مسلمانوں میں بعض ضعیف اور موضوع روایات کی بنیاد پر عام رجحان یہ پایا جاتا ہے کہ یہ بخشش اور جہنم سے آزادی کی رات ہے اس لئے بڑے اہتمام کے ساتھ جوق در جوق شب بیداری کی جاتی ہے اور ہجوم کی شکل میں قبرستانوں کی زیارت کی جاتی ہے، بڑے زور و شور کے ساتھ گھروں اور قبرستانوں میں چراغاں کیا جاتا ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح احادیث میں صرف اتنا ہے کہ اللہ تعالی اس رات میں مشرک اور کینہ توز کے علاوہ سب کو معاف کر دیتا ہے چنانچہ حدیث میں ہے عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ رضی اللہ عنہ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” إِنَّ اللَّهَ لَيَطَّلِعُ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَيَغْفِرُ لِجَمِيعِ خَلْقِهِ إِلَّا لِمُشْرِكٍ أَوْ مُشَاحِنٍ ” (إبن ماجہ :1390)ترجمہ: حضرت ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی نصف شعبان کی رات جلوہ افروز ہوتا ہے پس اپنی ساری مخلوق کو بخش دیتا ہے سوائے مشرک اور کینہ پرور کےاس روایت میں زیادہ سے زیادہ اس رات اللہ کی عام بخشش کا ذکر ہے جو اس میں کی جانے والی کسی خاص عبادت سے مشروط نہیں ہے اور نا ہی اس بنیاد پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح روایات کے مطابق کبھی بھی خصوصیت کے ساتھ رت جگا کیا اور نا ہی صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس کی ترغیب دلائی شیطان کی چالیں بھی بڑی عجیب ہیں اس نے اس رات میں جس کی عبادت کا ثبوت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت بھی نہیں مصنوعی عبادتوں میں لگا کر مسلمانوں کو ان راتوں سے غافل کر دیا جن میں اللہ اپنے بندے کو آواز لگا لگا کر عبادت کے لئے پکارتا ہے حدیث میں ہے عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ، يَقُولُ : مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ ؟ مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ ؟ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ ؟ “حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ ہمارا رب آسمان دنیا پر ہر رات نزول فرماتا ہے جب آخری تہائی رات باقی رہ جاتی ہے اور اعلان کرتا ہے، ہے کوئی مجھے پکارنے والا میں اس کی پکار سنوں؟ ہے کوئی مجھ سے سوال کرنے والا میں اس کو عطا کروں؟ ہے کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اس کو بخش دوں؟ چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ آج کا جاہل اور بدعت کا دلدادہ مسلمان اسی رات کی عبادت کو اپنے لئے کافی سمجھتا ہے حتی کہ اس کو فرائض کی بھی پرواہ نہیں ہے جہاں تک قبرستان کی زیارت کی بات ہے تو اس رات میں خصوصی زیارت پر دلالت کرنے والی روایات درجہ صحت کو نہیں پہنچتی اور نا اس لائق کہ ہیں کہ ان سے دلیل پکڑی جائے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلا شعبان کی راتوں کی قید کے حسب موقع قبرستان کی زیارت کو جاتے تھے اور ہمیں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی إتباع میں زیارت قبور کرنا چاہیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں ” كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – كُلَّمَا كَانَ لَيْلَتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَخْرُجُ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ إِلَى الْبَقِيعِ، فَيَقُولُ : ” السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَأَتَاكُمْ مَا تُوعَدُونَ غَدًا مُؤَجَّلُونَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَهْلِ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ ” (مسلم :974) یعنی جب کبھی نبی صلی کی باری ان کے یہاں ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری پہر میں جنت البقیع چلے جاتے، پس وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے اور کہتے” السلام علیکم دار قوم مؤمنين…….، اس حدیث سے معلوم ہو رہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کے وقت زیارتِ قبور کی عام عادت تھی اس میں شعبان کی کوئی خصوصیت نہیں ہے یہاں بھی شیطان کی ہوشیاری ملاحظہ فرمائیں کہ اس نے اہل بدعت کو کس طرح ہر رات کی سنت نبی سے ثابت شدہ زیارت قبور اور نفع بخش دعا سے محروم کردیا اور صرف ایک رات کی بدعات و خرافات سے لبریز مزعومہ عبادت میں مست کر دیا ہے جو سنت نبی کے خلاف ہونے کے باعث سراسر خسارے کا سبب ہے! فانا للہ و انا الیہ راجعون۔۔۔۔۔۔۔۔باقی آئندہ

Posted on Leave a comment

گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا: محمد محب الله بن محمد سيف الدين المحمدی

الحمدلله والصلاة والسلام على نبيه ومصطفاه محمد وعلى آله وأصحابه وأتباعه ومن والاه ، اللهم أجرنا في مصيبتنا ،واخلف لنا خيرا منها ،
رحلت يا شيخنا (نیازالمدنی) والأرض مجدبة ،
وكنت بالعلم أبراقا وأمطارا ،
اس كارگاه ہستي ميں انسانوں کی آمد ورفت کا سلسلہ ابتداء ہی سے جاری ہے، چمنستان دہر کا ہر پھول اپنی جداگانہ حیثیت اور شناخت کے ساتھ آتا اور چلاجاتا ہے، ہمارے شیخ نیاز احمد طیب پوری مدنی رحمۃ اللہ علیہ کو اس عالم خاک وبو میں تقريبًا 60 سال کی فرصت حیات ملی
7,1,1963ءمیں انھوں نے اس جہان ناسوت میں آنکھ کھولی ،
ء 3,10,2022 میں آنکھوموند لی ، اور اپنے پیچھے سوگواروں کا ایک انبوہ چھوڑ گئے ، آپ تو چلے گئے لیکن آپ کی یادیں ، ذکریات ، جہود ،مساعی ،مآثر ،مناشط ،و خدمات کا چمن لہہ لہا رہا ہے ،
ما مات من ذكره باقٍ وسيرته
في كل قلب لها فيض وأنوار ،
یوں تو دنیا میں آنے والے ہر انسان کو ایک نہ ایک دن جاناہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن علم و ادب کا نفیس ذوق رکھنے والی ایک ایسی بالغ نظر ، روشن دماغ اور پہلو دار شخصیت کی وفات جس کا وجود سائبان کی طرح ہو، جس کی حیثیت گویا شمس و قمر کے مانند ہو کہ اس کی ضیا پاشیوں سے ایک دنیا منور ہو، اور جس نے ایک لمبے عرصے تک تعلیم وتدریس کی بساط بچھائی رکھی ہو اور علم و عرفان کی قندیلیں روشن کی ہوں، اور دین حق کا صحیح شعور،منہج سلف اور اسلام کی حقانیت عام کرنے میں اپنی پوری طاقت نچوڑ دی ہو، ایسے با فیض معلم ومربی کی وفات انتہائی دکھ وافسوس اور رنج وغم کی بات ہے، اور انسانی تاریخ کا بہت بڑا نقصان ہے،
گویا شاعر کی زبانی ،
سورج کی موت چاند ستاروں کی موت ہے
وہ ایک کی نہیں ہے، ہزاروں کی موت ہے
أيها الراحل المحبوب معذرة
اذا طغي من بحار الحزن تيار ،
شیخ سے پہلا تعارف :
بات 2016ء کی ہے جب میرا داخلہ جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں میں ہوا ، ایک دن شام میں مسجد عائشۃ الدعیج میں شیخ نیاز رحمہ اللہ سے میرا علیک سلیک ہوا ، اور یہ پہلی بالمشافہ ملاقات ہے شیخ سے میری ، یوں تو شیخ کے کئی مضامین اور اداریہ صوت الحق والبلاغ میں پڑھ چکا تھا ، غایبانہ عقیدت تو مدت مدید سے تھی ،
اس ملاقات نے عقیدت ومحبت کو دوبالا کردیا ، اتنی اپنائیت ،محبت، وتپاک سے ملے کہ میں رام ہوگیا ،
جامعہ پہنچنے کے چند دنوں بعد ہی شیخ کا پہلی دفعہ خطبۂ جمعہ سنا ، خطبہ اتنا پرتأثیر تھا کہ ابھی تک اس خطبے کے بعض اہم نکات ذہن کے گوشے میں محفوظ ہے ، شیخ کا موضوع تھا ” انسانی زندگی میں گناہوں کے اثرات ” میں نے دیکھا کہ بہت سارے طلاب شیخ کے خطاب کو اپنی ڈائری میں نوٹ کررہے ہیں ،
یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار ورسن کہاں ،
شیخ رحمہ اللہ کی اکثر گھنٹیاں کلیہ عائشہ میں تھیں ،تاہم ایک دو گھنٹی غالباً مسلم شریف وغیرہ آپ کلیہ کے طلباء کو پڑھاتے تھے ،
شیخ سے میں نے بھی استفادہ کی کوشش کی تھی بعض دفعہ عصر کی نماز کے بعد جب شیخ مسجد سے نکلتے تو میں آپ کے پیچھے لگ جاتا درس کے متعلق یا خارج درس کے سوالات کرتا اور شیخ سے مستفید ہوتے رہتا یہاں تک کہ آپ فرینہ منزل تک پہنچ جاتے ، کئی دفعہ شیخ نے مجھے اپنے گھر اور لائبرری میں بلایا ، اور بعض کتابیں بھی دکھائی ،
شیخ دعوتی مزاج کے تھے ، ملت کادرد وتڑپ تھا ، آپ مسلمانوں کی تعلیمی پستی وزبوں حالی کو دیکھکر کافی بے چین رہتے تھے ، نوجوانوں کے بگڑتے ہوئے حالات اور سماج ومعاشرے کی گندی سیاست واوچھی حرکت سے آپ کافی غمگین رہتے تھے ، شیخ نے اس طرح کے کئی واقعہ کا ذکر کیا ہے خوف طوالت کی بنا پر یہاں بیان نہیں کیا جا سکتا،
شیخ رحمہ اللہ نصیحت کیا کرتے تھے کہ مکتب کی تعلیم ٹھوس دیا جائے، کمیت سے زیادہ کیفیت پر توجہ دیا جائے، وغیرہ وغیرہ،
کرونا لاکڈاؤن سے پہلے کی بات ہے جب والد محترم نے مجلہ نواۓ ابوعبیدہ نکالنے کا فیصلہ کیا تو میں نے شیخ سے اس کا تذکرہ کیا ،چنانچہ شیخ نے کافی مسرت کا اظہار فرمایا اور ایک مضمون بھی اس نومولود مجلۂ کے لئے قلمبند کیا اور تہنئت وتبریک کے ایک خط بھی لکھے ، شیخ رحمہ اللہ ہم طلبہ کو مطالعہ کرنے پر ابھارتے تھے ، لکھنے( مضمون نگاری، تخلیص نگاری وغیرہ )، کی تلقین وتاکید کرتے تھے، آپ اپنے منفرد ونرالے انداز میں کہا کرتے تھے “لکھوں لکھنا لکھنے سے آتا ہے ” لکھنا سیکھو، چھپنا نہیں ” پڑھو پڑھنا پڑھنے سے آتا ہے “
شیخ طلباء کو اکثر کہا کرتے تھے کہ لایبریری جایا کرو ، مطالعہ کرو،اور سکون سے کروں ،اور اپنے ساتھ ایک ڈائری ہمیشہ رکھو ، بہت سارے طلباء سوچتے ہیں مطالعہ تو کرتے ہیں لیکن ذہن میں کچھ باقی نہیں رہتا تو معاملہ ایسا نہیں ہے ،بلکہ دماغ تو امانت دار چور ہے ،
شیخ نے مجھے ایک اہم کتاب ہدیہ کیا ہے ” بچے کیوں بگڑتے ہیں ” کہتے تھے ،اس سے اہم اہم نکات تلاش کرکے تم لوگ خطبہ میں بیان کرنا ، اس کا افادہ عام کرنا ،اسی طرح شیخ محترم نے اپنی تالیف کردہ ایک کتاب بزبان ہندی کے 15 نسخے ہدیہ دیئے ،اور کہا کہ اپنے ارد گرد کے غیر مسلم بھائی کو بعض نسخے دینا تاکہ وہ اسلام کا مطالعہ کرۓ، اور عنف وتشدد ختم ہو اور اللہ نے اگر توفیق دیا تو وہ اپنی مرضی سے دامن اسلام میں بھی پناہ لیں گے (ان شاءاللہ )
لہٰذا میں نے شیخ کی نصیحت پر عمل کیا اور اپنے بعض ہندو اساتذہ کو وہ کتابیں دی ،
شیخ رحمہ اللہ نے ایک دفعہ فرمایا کہ لوگ تعبیر کے فقیر ہوتے ہیں ، ایک دفعہ میں اپنے ہی قریبی رشتہ دار کی وفات پر اس کا گھر گیا ہوا تھا ، تو لوگوں کو دیکھ رہا ہوں اس مصیبت عظمی میں حال چال پوچھ رہے ہیں ،اور کیا خیریت ہے ؟ طبیعت پانی سب ٹھیک ہے نا ؟ بتائیے مصیبت ،رنج وملال ،غم واندوہ کا پہاڑ ہے ، ایسے موقعہ پر اس طرح کے جملے واقعی تکلیف دہ ہوتے ہیں ،
شیخ رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ مزاحا بتایا کہ ، بریلوی ودیوبندی ایک مٹر کے دو دانے ہیں ،
اسی طرح ایک دفعہ بتارہے تھے کہ بعض منکرین حدیث سے جب ہم نے بات کیا تو پتہ چلاکہ سب جاہل ہیں ،ان میں سے کئی ایک تو خیاط ہیں ،کپڑا وغیرہ سلتے ہیں ۔
وغیرہ وغیرہ ،
شیخ کے اوصاف :
هم الرجال اذا ما جئت تمدحهم
سمت على الحرف تيجان وأزهار ،
شیخ رحمہ اللہ ریاء ونمود سے دور رہتے ، صاف وشفاف سینہ ، بغض وحسد سے دور ،مصقل ومصفی دل ، فرط ذکاوت ،أخاذ ذہن ،قوی حافظہ ،مضبوظ ذاکرہ ، اور ایک زندہ دل شگفتہ مزاج ،مرنجا مرنج انسان تھے ،
شیخ کی دوممتاز خوبی ، جسے میں نے شیخ کی زندگی میں خاصکر دیکھا ،
1 ۔ مولانا مرحوم ایک ظریف انسان تھے ، بسا اوقات لطیف سا مذاق بھی کرلیا کرتے تھے ، ایک مرتبہ شیخ ہمارے بزم صحافت کی صدارت کررہے تھے ، طلباء کرام اپنا مقالہ پیش کررہے تھے ،اسی اثناء میں ایک ساتھی نے مطالعہ کی اہمیت پر مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے بعض اسلاف ایسے بھی گزرۓ ہیں جنھوں نے زندگی میں تین دن ہی مطالعہ نہ کرپائے تھے ، ان میں سے ایک دن وہ رات جسمیں آپ ازدواجی زندگی سے منسلک ہوئے تھے ، یعنی شب زفاف ، تو شیخ نے مسکراتے ہوئے صدارتی خطاب میں کہا کہ دیکھو تم لوگ ایسا نہ کرنا ، ورنہ قوی اندیشہ ہے بھاگ جاۓ گی ، پھر شیخ نے مطالعہ کے آداب اصول وضوابط پر مفصل و جامع خطاب کیا اور ہم سب محظوظ ہوتے رہے ،
2 ۔ شیخ رحمہ اللہ ہمت افزائی میں بھی بڑۓ فراخ دل تھے ، کسی نئے لکھنے والے ،پڑھائی میں محنت کرنے والے ،اچھے نمبرات لانے والے ،یاکسی کے اندر کوئی بھی اچھی خوبی ہوتی تو آپ جمکر داد دیتے ،تشجیع وتحفیز کرتے ، اور نیک مشوروں سے نوازتے ، ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازتے ، مزید جد وجہد کدکاوش کرنے کو کہتے اور باکمال دیکھنے کی تمنا کرتے تھے ،
گویا آپ زبان حال سے یہ کہہ رہے ہوتے کہ اڑو اڑتے جاؤں اور آسمان کو پہنچ جاو ،سورج کو چھو لو ،
من كان فوق محل الشمس موضعه
فليس يرفعه شئ ولا يضع ،
ان اوصاف کے علاوہ بہت ساری خوبیاں تھیں فقید رحمہ اللہ میں مثلاً، زبان میں مٹھاس اور حلاوت تھی ، قلم میں روانی اور سنجیدہ بیانی تھی ، نقد ونظر میں ژرف نگاہی ،تنقید میں سلامت روی تھی ،غرض کہ ان کی زندگی کے کسی گوشہ میں بھی ہنگامہ آرائی نہ ،شور وشر ،تصنع وتزخرف ،تکلف اور بناوٹ نہ تھی،وغیرہ وغیرہ ،
اس کے اوصاف حمیدہ اور بھی تو ہیں بہت
ذات میں اس کی چمکتے ہیں وہ جیسے کہکشاں
جنت الفردوس میں اس کے مراتب ہوں بلند
مہرباں اس پر رہے ہر آں خداۓ مہرباں ،
آمین ،
ہجوم اشغال :
شيخ نے اپنی زندگی کا ایک ایک حصہ کام میں لگایا ، درس وتدریس ،دعوت وتبلیغ ، بحث وتحقیق ،تصنیف وتالیف ،خطابت وصحافت ، وغیرہ میں مشغوف ومصروف رہے ، آپ کے استغلال وقت کا اندازہ کیجئے کہ آپ سفر میں بھی پڑھتے لکھتے رہتے تھے، ہندی زبان میں بخاری کی شرح جو آپ نے لکھا تو آپ بتارہے تھے کہ ہم نے سفر میں بھی اس پر کام کیا ہے ، شیخ قلم کے دھنی تھے ، بہت شستہ شگفتہ لکھتے ، چھوٹے چھوٹے جملے لکھتے ،اور ایسا لکھتے کہ بس پڑھتے جائیے اکتاہٹ آپ کی کسی تحریر سے نہیں ہوتی ہے ،آپ کی تحریرحشو وزوائد واطناب سے پاک ہوتی ، جدت وابتکار آپ کی نمایاں خوبیوں میں سے ہے،اس کےثبوت کیلئے ،آپ کا وہ علمی و قلمی سرمایہ ہے جو آپ نے اپنے پیچھے چھوڑۓ ہیں ،
گویا ،
میرۓقلم نے مذاق حیات بدلا ہے
بلندیوں پہ اڑا ہوں ،سما سے کھیلا ہوں ،
قارئین کی طرف سے یہ صدا کہ ،
تشنگی جم گئی پتھر کی طرح ہونٹوں پر
ڈوب کر بھی تیرے دریا سے پیاسا نکلا ،
ہمارے شیخ مختلف پریشانیوں اور ہجوم اشغال کے باوجود سارے بکھیڑوں اور ذمہ داریوں سے فراغت کرکے اپنی شخصیت کو باغ وبہار بنا لیا کرتے تھے ،لکھتے پڑھتے رہتے تھے ، محفل میں ہیں تو بے تکلف ہیں ،باغ وبہار بنے ہیں ،خطابت کے منبر اور اسٹیج پر ہیں تو سامعین پر حکمراں ہیں ، شگفتگی ٹھہراؤ تو شیخ کا خاص اسٹائل تھا ،
اللہ تعالیٰ نے شیخ رحمہ اللہ کو زبان وقلم کا مضبوط ملکہ دیا تھا ،بولتے کیا تھے موتی رولتے تھے ، اور سننے والے سردھنتے تھے ،اردو زبان ہو یا عربی، ایسے جاذب و دل کش انداز اور دل پذیر و پرتاثیر اسلوب میں لکھتے تھے کہ اس کا اثر پڑھنے والے اپنے دل پر محسوس کرتے تھے، اور یہ کہنے پر مجبور ہوتے تھے:
بے سبب دل نہیں کھنچتا تری باتوں کی طرف
کچھ نہ کچھ بات محرر! تری تحریر میں ہے،
معزز قارئین : یہ چند سطوریاد ماضی کے چند حسین لمحات سے مقتبس ہیں،باتیں بہت ہیں لیکن اتنے ہی پر اکتفاء کرتا ہوں ،
ع۔ سفینہ چاہئیے اس بحر بیکراں کیلئے ،
اخیر میں یہ وضاحت ضرور کرنا چاہتا ہوں کہ ،شیخ ایک عظیم شخصیت کے مالک تھے ، بہت عظیم تھے ،لیکن بشر ہی تھے خطاء وچوک بشر سے ہی ہوتا ہے ، کمال تو بس رب تعالیٰ کی خصوصیت ہے ،دعاء ہے کہ مولاۓ کریم شیخ کی خدمات کو قبول فرمائے ، اور ذلات کو معاف فرمائے ، جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے ،آمین یارب العالمین
ازقلم : محمد محب الله بن محمد سيف الدين المحمدی

Posted on Leave a comment

جامعہ صفیہ الاسلامیہ پربتی پور ، مرشد آباد ، مغربی بنگال

. جامعہ صفیہ الاسلامیہ کا افتتاحی پروگرام

▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️
✒️ مفیض الدین بخاری

مؤرخہ 8 جنوری 2023ء بروز اتوار بوقت صبح ساڑھے نو بجے عالیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے زیر اہتمام چلنے والا ادارہ جامعہ صفیہ الاسلامیہ پربتی پور، کاندی، مرشد آباد، مغربی بنگال کا افتتاحی پروگرام نہایت ہی تزک و احتشام کے ساتھ منعقد ہوا۔ وقتِ مقررہ پر پروگرام کا آغاز فضیلۃ الشیخ حافظ حیات اللہ حفظہ اللہ کی تلاوت کلام پاک سے ہوا اور فضیلۃ الشیخ خوشبو الرحمن حفظہ اللہ نے چند اشعار کے ذریعہ شان رسالت میں گلہائے عقیدت پیش کیے بعدہ عالیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے روح رواں فضیلۃ الشیخ انعام الحق مدنی حفظہ اللہ نے استقبالیہ کلمات پیش کیے اور ادارہ کی تاسیس کے عزائم و مقاصد کو تفصیل کے ساتھ بیان کیے۔
اس افتتاحی پروگرام میں بحیثیت مہمان خصوصی فضیلۃ الشیخ شبیر احمد مدنی حفظہ اللہ اور راقم الحروف مدعو تھے، شیخ شبیر احمد مدنی حفظہ اللہ نے تعلیم نسواں کی اہمیت کی خوب وضاحت کی اور اس کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ والدین میں باپ خود تعلیم یافتہ ہو سکتا ہے لیکن ماں ایک قوم کو تعلیم و تربیت سے آراستہ و پیراستہ کر سکتی ہے اس لیے اپنی بچیوں کو تعلیم دے کر اپنی قوم کو علم سے منور کرنے والا بنیں۔ اور راقم الحروف نے سماج و معاشرہ کے عوام و خواص سے ان کی ان ذمہ داریوں کا احساس دلایا جو ان پر لابدی ہیں چنانچہ اس ضمن میں بتایا گیا کہ اولاد کے مابین فکری عدم توازن یعنی صرف بچے کو تعلیم کے لیے آگے بڑھانا اور اس کے لیے مختلف النوع پریشانیاں اٹھانا اور بچیوں کو تعلیم سے محروم کرنا، ان کے حق میں کوتاہی سے کام لینا اور اس کے مستقبل کی بلندی کے لیے خصوصی توجہات ‌مبذول نہ کرنا غیر منصفانہ عمل ہے۔
پھر پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے قرب و جوار و دور دراز علاقوں سے تشریف فرما مہمانان عظام یکے بعد دیگرے آئے اور تعلیم نسواں کی اہمیت، ضرورت اور اس کے افادیت کے متعلق مفید مشورے و قیمتی پندو نصائح پیش کیں اور سماج و معاشرہ کے عوام و خواص سے اپنی بچیوں کو دینی تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کرنے کی ترغیب دلائی نیز سماج و معاشرہ میں آئے دن در پیش ان تمام دینی مسائل پر بات چیت ہوئی جن میں بہ نسبت مردوں کے عورتیں کو معرفت ہونی چاہئے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ان کے پاس قرآن وحدیث کے صحیح علم ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں ماہر ہوں۔
پروگرام میں بحیثیت مہمان فضیلۃ الشیخ مساند الاسلام صاحب، فضیلۃ الشیخ افضل حسین اصلاحی، فضیلۃ الشیخ سلیمان‌ حسین مفتاحی، فضیلۃ الشیخ عبد الحکیم سلفی، فضیلۃ الشیخ ابراہیم سلفی، فضیلۃ الشیخ قمر الاسلام صاحب، فضیلۃ الشیخ احمد علی صاحب، ماسٹر عبد الغفار حفظہم اللہ موجود تھے۔ جنہوں نے اس دینی ادارہ کی تاسیس کے بعد اسے پورے نظم و ضبط کے ساتھ چلانے، اور اس کے انتظام و انصرام کی بحسن و خوبی انجام دہی جیسے مشکل امر کیلئے کمر بستہ ہونے کی بابت خوب سے خوب تر حوصلہ افزائی کی۔
اخیر میں پروگرام کے روح رواں فضیلۃ الشیخ انعام الحق مدنی حفظہ اللہ نے پروگرام میں شریک تمام علماء کرام و سامعین حضرات سے گذارش کی کہ دینی درسگاہ کی شکل میں اس مبارک شجر کو سینچنے و سنوارنے، روز افزوں اسے ترقی پزیر ہونے نیز اسکے برگ وبار سے قوم کو مستفید ہونے میں بالخصوص تمام علماء کرام اور بالعموم تمام اخوان دامے درمے سخنے قدمے ہمارا ساتھ دیں۔
ا س طرح بفضل للہ تعالی پروگرام بحسن وخوبی اپنے اختتام کو پہنچا اور جامعہ صفیہ الاسلامیہ کے رئیس ومؤسس فضیلۃ الشیخ انعام الحق مدنی حفظہ اللہ نے رب کریم اور تمام مہمانان عظام وسامعین کرام کے شکریہ کے ساتھ مجلس کے اختتام کا اعلان کیا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس ٹرسٹ ہذا کے چیئرمین حفظہ اللہ کی حیات دراز کرے، بصحت وعافیت رکھے اور اس ادارے کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے آمین۔

Posted on Leave a comment

غزل، Gajal

Salik Bastavi, सालिक बस्तवी, سالک بستوی شاعر

غزل
سالک بستوی ایم اے
خون جگر پلا کے چمن کو سنوار دے
شاداب شاخ شاخ ،ہوا خوشگوار دے
مالی بنا ہے باغ کا تو فرض بھی نبھا
مایوس بلبلوں کو نئی پھر بہار دے
دنیا کو آئےرشک تری خوئے نیک پر
کردار پھول کی طرح اپنا نکھار دے
دنیا دیوانی ہوگی تری ایک دن ضرور
مخلوق کےدلوں میں تو خود کو اتار دے
یہ زندگی ملی ہے تجھے ؐ چارؐ روز کی
”روکرگزار یا اسے ہنس کر گزار دے“
ہوجائے گا وہ آدمی اللہ کا حبیب
جو پرخلوص قلب سے اس کو پکار دے
جھوٹی قسم جو کھا کےدیا کرتا ہےفریب
اس کو کبھی نہ بھول کےسودا ادھاردے
کرنا حسد برا ہے امیروں کے مال پر
اللہ جس کو چاہے اسے بے شمار دے
چلنے لگی ہے نسل نئی راہ پر خطر
ہے باپ تو اولاد کی عادت سدھار دے
سالک کی ہے دعا یہی پرور دگار سے
پستی میں قوم ہےمری اس کو ابھاردے

Posted on Leave a comment

غزل، Gazal, गज़ल

غزلسالک بستوی ایم اےخون جگر پلا کے چمن کو سنوار دےشاداب شاخ شاخ ،ہوا خوشگوار دےمالی بنا ہے باغ کا تو فرض بھی نبھامایوس بلبلوں کو نئی پھر بہار دےدنیا کو آئےرشک تری خوئے نیک پرکردار پھول کی طرح اپنا نکھار دےدنیا دیوانی ہوگی تری ایک دن ضرورمخلوق کےدلوں میں تو خود کو اتار دےیہ زندگی ملی ہے تجھے ؐ چارؐ روز کی”روکرگزار یا اسے ہنس کر گزار دے“ہوجائے گا وہ آدمی اللہ کا حبیبجو پرخلوص قلب سے اس کو پکار دےجھوٹی قسم جو کھا کےدیا کرتا ہےفریباس کو کبھی نہ بھول کےسودا ادھاردےکرنا حسد برا ہے امیروں کے مال پراللہ جس کو چاہے اسے بے شمار دےچلنے لگی ہے نسل نئی راہ پر خطرہے باپ تو اولاد کی عادت سدھار دےسالک کی ہے دعا یہی پرور دگار سےپستی میں قوم ہےمری اس کو ابھاردے
Posted on Leave a comment

ترانۂ توحید

ترانۂ توحید
سالک بستوی ایم اے

شمع دین ھدی کو جلاتے چلو
ظلمت شرک وبدعت مٹاتےچلو
جوت حسن عمل کی جگاتے چلو
زندگی کا ترانہ سناتے چلو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عزم کامل کے جوہر دکھا تے چلو
جام توحید و سنت پلا تے چلو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پنجۂ کفر و طاغوت کو موڑ دو
بغض و نفرت کی دیوارکو توڑدو
دہریت کے نشیلے سبو توڑ دو
آنکھ دکھلائے باطل توسرپھوڑ دو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلستاں حریت کا سجاتے چلو
جام توحید وسنت پلاتے چلو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم موحد ہو حاجت روا ہے خدا
صرف رب دوعالم ہےحاجت روا
جس کےسینے میں ہے نورایمان کا
سرفرازی کا جلوہ ہے اس پر فدا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راہ حق پر چلو مسکراتے چلو
جام توحید وسنت پلاتے چلو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم سجاتے رہو دین کی رہ گزر
اسوۂ مصطفے پر فدا ہو نظر
فکر ملت رہے تم کو شام وسحر
منزل ارتقاء پر چلو جھو م کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاؤ ں منزل کی جانب بڑھاتےچلو
جام توحید وسنت پلا تے چلو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‌‌۔
اپنی منزل کی جانب بڑھاؤ قدم
پھونک دو کفر کے خارزار ستم
لے کے توحید وسنت کا سالک علم
شوق سے تم سناؤ نوائے حرم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فتنۂ دہریت کو دباتے چلو
جام توحید وسنت پلاتے چلو

Posted on Leave a comment

جامعۃ الامام الالبانی اتر دیناج پور مغربی بنگال، ہند

_____*جامعۃ الامام الالبانی: مختصر تعارف*_____سرزمین ہند کے خطۂ مشرق و شمال میں واقع صوبہ مغربی بنگال سے ضلالت وگمراہی کی تاریکی مٹانے اور حق وصداقت کی قندیلیں روشن کرنے کے لئے قوم کا ہونہار، روشن خیال، متحرک وفعال اور عالی ہمت جاں نثار فضیلۃ الشیخ ابو اریب مطیع الرحمن شیث محمد المدنی حفظہ اللہ ورعاہ نے *جامعۃ الامام الالبانی* کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جو آج الحمد للہ تعلیم وتعلم، صحافت وخطابت ،تصنیف وتالیف ،ناداروں اور یتیموں کی کفالت اور رفاہی خدمات سے لے کر دعوت وتبلیغ اور اصلاح وسدھار کے ہر میدان میں اپنی ایک پہچان رکھتا ہے۔ جامعہ اللہ کے فضل وکرم سے آج ترقی کی ان بلندیوں پر ہے جہاں یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ *اصلھا ثابت وفرعھا فی السماء* ۔مہمانان گرامی قدر! آپ حضرات کی سماعت کے حوالے جامعہ کے مختلف شعبوں کا مختصر تعارف پیش کیاجاتا ہے۔ جامعہ کا نام: جامعۃ الامام الالبانی سن تاسیس: 15/جولائی 2016محل وقوع: بوڑھیان، پوسٹ: مگنابھیٹا، تھانہ: کرندیگھی، ضلع: اتردیناجپور، صوبہ: مغربی بنگال، ہندرئیس ومؤسس: ابو اریب مطیع الرحمن شیث محمد المدنی مقاصد : ۱- اللہ کے بندوں کو اللہ سے جوڑنا اور زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ سکھلانا۔ ۲- ملت کے نونہالوں کو فکری بے راہ روی اور الحاد واباحیت پسندی سے موڑ کرصحیح اسلامی تعلیمات سے آراستہ کرنا ۔۳- اچھی صلاحیت کے ساتھ ساتھ دولت صالحیت سے مالا مال کرکے نونہالان قوم وملت کو امت کی صحیح رہنمائی کرنے کے قابل بنانا ۔۴- دینی علوم کے ساتھ عصری علوم سے بھی طلبہ کو مزین کرنا تاکہ وہ ہر سطح پردعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دے سکیں۔*جامعہ کی انتظامیہ کمیٹی*: مؤسس و رئیس جامعہ فضیلۃ الشیخ مطیع الرحمن شیث محمد المدنی حفظہ اللہ کے زیر نگرانی قائم مندرجہ ذیل تین کمیٹیوں کے اشراف میں جامعہ اپنی دینی سرگرمیوں کو انجام دینے میں مصروف ہے۔ ۱۔ لجنۂ تنفیذی ،جس کے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ارکان ہیں. ۲۔ لجنۂ استشاری جس کے بشمول تنفیذی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارکان ہیں. ۳۔ لجنۂ علمی جس کے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ارکان ہیں. *جامعہ کے شعبہ بنین وبنات* کے تعلیمی مراحل:(1) عالمیت یہ مرحلہ دو سال کی تعلیم پر مشتمل ہے جس میں حفظ وتجوید، تفسیر وعلوم تفسیر ،حدیث وعلوم حدیث ، فقہ واصول فقہ ،عقیدہ وادب ، سیرت وتاریخ ،نحو وصرف ، اور بلاغت کے ساتھ انگریزی زبان کی ٹھوس تعلیم دی جاتی ہے۔ (2) ثانویہ یہ مرحلہ دو سال کی تعلیم پر مشتمل ہے جس میں حفظ وتجوید ،حدیث واصول حدیث ، تفسیر وعقیدہ ، فقہ واصول فقہ ، نحو وصرف ، سیرت وتاریخ اور ہندی کے ساتھ انگریزی مضمون کو لازمی سبجکٹ کی حیثیت سے پڑھایا جاتا ہے۔ (3) متوسطہ یہ مرحلہ تین سال کی تعلیم پر مشتمل ہے جس میں حفظ وتجوید ،قرآن ( ترجمہ وتفسیر) حدیث، عقیدہ وادب ،نحو صرف ،سیرت وتاریخ ،اردو زبان وادب اور ہندی وحساب کے ساتھ انگریزی زبان کی لازمی مضمون کی حیثیت سے تعلیم دی جاتی ہے۔ (4) شعبہ ابتدائیہ یہ شعبہ پانچ سال کے تعلیمی کورس پر مشتمل ہے ۔ اس مرحلہ میں دینیات کے ساتھ انگریزی ،ہندی ،حساب ،جغرافیہ اور معلومات عامہ کی ایسی ٹھوس تعلیم دی جاتی ہے کہ طالب علم کسی بھی سرکاری اسکول میں آٹھویں کلاس میں بآسانی داخل ہوجاتا ہے۔ واضح رہے کہ اس مرحلہ میں عصری مضامین کی کتابوں کو داخل نصاب کیا گیا ہے تاکہ طلبا کی استعداد مضبوط اور ان کی علمی بنیاد ٹھوس ہو۔ شعبہ جات: کلیہ شریعہ للبنین: اس شعبہ میں غریب، یتیم اور محتاج طلبہ کی ایک خاصی تعداد ہے۔ اور من جملہ طلبہ کی کل تعداد 350 ہے۔کلیہ شریعہ خدیجہ رضی اللہ عنہا للبنات: اس شعبہ میں قوم کی بیٹیوں کو اسلامی ماحول میں رہ کر دنیوی علوم و عصری علوم کے ساتھ کشیدہ کاری، کمپیوٹر اور سلائی وغیرہ کی بھی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ جن کی کل تعداد 650 ہے۔شعبۂ بنین وبنات کا نصاب تعلیم : جامعہ کا نصاب خالص کتاب وسنت اور ان دونوں کے معاون علوم کی تدریس وتعلیم پر مشتمل سعودی منہج وفکر سے ہم آہنگ ہے۔ واضح رہے کہ شعبہ ٔ بنین اور شعبہ بنات کے نصاب میں مکمل ہم آہنگی ہے۔ *شعبہ تحفیظ القرآن*: جامعہ میں ‘‘معہد زید بن ثابت لتحفیظ القرآن’’ کے نام سے شعبۂ حفظ کا قیام عمل میں آیا ہے تاکہ تجوید کے ساتھ قرآن کریم کی مشق اور مکمل حفظ کرایا جاسکے۔ *شعبہ خطابت*: اصلاح سماج کیلئے فن خطابت کی اہمیت کے پیش نظر طلبہ وطالبات کے مابین ہفتہ واری انجمن کا انعقاد کے ساتھ ثقافتی سرگرمی پیدا کرنے گاہے بگاہے مسابقتی پروگرام، دبیٹ، اور سمپوزیم بھی رکھی جاتی ہے۔ تاکہ فراغت کے بعد بحیثیت مصلح سماج خوب سے خوب خدمات انجام دے سکے۔*شعبۂ صحافت* جامعہ ہذا نے فن خطابت کے ساتھ فن صحافت میں ہنر آزمانے پر خاص توجہ دی ہے جس کے تحت ہر ماہ *صوت الالبانی* کے نام سے طلبہ کے لکھے ہوئے چھوٹے چھوٹے مضامین عربی، انگریزی، اردو اور بنگلہ زبان میں منظر عام پر آتے ہیں۔ اور سالانہ صحافتی مسابقہ بھی کرایا جاتا ہے۔ *شعبہ دعوت و تبلیغ*: اس پلیٹ فارم سے درس قرآن ، درس حدیث ،خطبۂ جمعہ اور گاہے بگاہے جلسوں میں شرکت کے ذریعہ جامعہ کے اساتذہ وطلبہ دعوت وتبلیغ کا فریضہ مختلف مقامات پر انجام دیتے ہیں۔*شعبۂ تصنیف و تالیف*: جامعہ کے زیر اشراف تصنیف وتالیف اور تحقیق وترجمہ کا مستقل شعبہ ہے جس کے تحت اب تک عربی ، اردو اور بنگلہ زبانوں میں کئی ساری کتابیں شائع ہوکر مقبول ہوچکی ہیں ۔ مزید اس ادارہ کے جانب سے ایک دینی ،علمی واصلاحی مجلہ ماہنامہ “مجلہ الناصر’’ کے نام سے اردو زبان میں شائع ہوتا ہے۔*مکتبہ ابن باز* : جامعہ کے پاس اپنی ایک بڑی لائبریری ہے ۔ کم عرصہ ہی میں کتابوں کا اچھا خاصہ ذخیرہ پایا جاتا ہے۔ بروقت کتابوں کی تعداد (۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ) ہے۔ ساتھ ہی ہند وبیرون ہند سے شائع ہونے والے مختلف زبانوں کا اخبارات ورسائل سے بھی لائبریری مالا مال ہے ۔*دار الایتام* : اس شعبہ کے ذریعہ غریب ومسکین اور یتیم بچے ، بچیوں کی تربیت وتعلیم ،خورد ونوش ،لباس ورہائش ،علاج ومعالجہ اور بجلی وپانی فیس کی فراہمی پر توجہ صرف کیا جاتا ہے۔*ایمبولینس* : جامعہ کے پاس ایک ذاتی ایمبولینس ہے جس سے طلبہ وطالبات کے ساتھ علاقہ کے عام ضرورت مند لوگ بھی مکمل فری مستفید ہوتے ہیں۔ *شعبہ زراعت* : جامعہ کے پاس قابل کاشت کچھ زمین ہیں، جن میں باغبانی اور زراعت کا کام کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں مچھلی پالن کے لئے کئی ایک تالاب ہیں جن سے موصول ہونے والی رقم جامعہ ہذا کے اخراجات میں صرف کیے جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ جامعہ امام البانی کو دن دونی رات چوگنی عطاء فرمائے آمین یاربنا

Posted on Leave a comment

ہمارا استحصال


یقینا علم کا حاصل کرنا سب سے بہترین کاموں میں سے ایک ہے ۔اس کے حصول کی خاطر ہم طلبہ اپنے ماں باپ ،بھائی بہن،رشتہ دار اور دوستوں و احباب کو چھوڑ کر مدرسے‌ کا رخ کرتے ہیں ۔مزید اعلی تعلیم کے لئے جامعات اور عصری علوم کے لئے کالجز اور یونیورسٹیز کا قصد کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
اس تعلیمی سفر کے دوران ہم طلبہ کا خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی کئی اعتبار سے استحصال کیا جاتا ہے،ان کی کمزوریوں کا غلط استعمال کیا جاتا ہے اور ان کی مجبوریوں سے ان کی عزت اچھالی جاتی ہے ۔۔۔۔۔
یقینا جہاں بعض طلبہ بہت ذہین و فطین ہوتے ہیں وہیں بعض کمزور بھی ہوتے ہیں۔لیکن ذہین اور کمزور دونوں قسم کے طلبہ کا استحصال کیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔یہاں یہ بات بھی واضح کرتا چلوں کہ ہمارا استحصال کرتا کون ہے ؟ ہماری مجبوریوں‌ کا غلط استعمال کرتا کون ہے ؟ تو جواب: ہمارے اساتذہ ہیں ۔میں نہیں کہتا کہ سارے اساتذہ اس میں شامل ہیں۔ بلکہ ہمارے اکثر‌ اساتذہ اچھے ہیں اور بہت اچھے ہیں ۔ان کا ڈانٹنا ،ان کا مارنا اور ان کا کسی معاملے میں غصہ ہونا یقیناً ہمارے لئے باعث رحمت ہوتی ہے کیوں کہ ان کے اندر اخلاص کا مادہ ہوتا ہے ۔اللہ انہیں جزائے خیر دے ،انہیں اپنے حفظ و امان میں رکھے اور ان کے جائز خواہشات کو پوری کرے آمین ۔۔۔ لیکن بعض اساتذہ کا ہمارا استحصال،ہمارا مزاق اور ہماری عزت کو اچھالنا محبوب مشغلہ ہے ۔۔۔ وہ اس طور پر کہ جو طلبہ‌خواہ وہ مدرسے کے ہوں یا کالجز کے جو ذہین ہیں ان کو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر کئی چیزوں میں استمعال کرتے ہیں۔۔۔جو کسی بھی طور پر جائز نہیں ہے۔۔اسی طرح جو کمزور ہوتے ہیں ان سے زیادہ سوال کرنا تاکہ کلاس میں ہنسی کا ماحول پیدا کیا جاسکے،اسے تمام طلبہ کے بیچ یہ احساس دلایا جا سکے کہ یہ علم تمہارے بس کا نہیں ہے تم کند ذہن ہو ،کوئی اور کام کرلو ،پورے کلاس والوں کو ایک تفریح کے سامان کے حیثیت سے کمزور طلبہ کو رکھ دیا جاتا ہے اور سب مزاق بناتے ہیں ۔۔۔اس طرح کمزور طلبہ کا استحصال کرتے ہیں اور رسوا کرتے ہیں ہمارے بعض اساتذہ۔۔۔
ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے اس بات سے بہت سے‌اساتذہ اور بہت سے طلبہ متفق نہیں ہوں گے لیکن حقیقت یہی ہے اور سچھائی یہی ہے کہ ان کے اندر اخلاص نہیں ہے ،اللہ کا خوف نہیں ہے،
یاد رکھیں آپ چاہے جو بھی ہوں ،کتنے ہی باصلاحیت اور بارعب ہوں ۔۔۔اگر آپ ظلم کریں گے‌ نا تو اللہ آپ کو نہیں چھوڑے گا ۔۔۔اس دنیا میں نہیں تو کل قیامت میں آپ پکڑے جائیں گے ۔۔۔اور یہ بھی یاد رہے کہ مظلوم کی بددعا سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے ۔۔۔اللہ ہم سب کو اچھی سمجھ عنایت فرمائے آمین ۔۔۔

محفوظ الرحمن محمد اسلم جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ