About

About Us

عنوان : دنیا کی حقیقت

اس دنیا کی landscape, moutnains, meadow-7665765.jpgسب سے بڑی حقیقت یہی ہے کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ،یہ سوائے سراب کے اور کچھ نہیں ہے ، دور سے چمکتی ہے اور جب نزدیک پہنچیے تو سوائے نامرادی کے اور کچھ ہاتھ نہیں لگتاپھر اس دنیا کو خود پر طاری کرلینا کسی عقل مند انسان کا کردار نہیں ہوسکتا۔صاحب ایمان مسلمان کا تو بالکل بھی نہيں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لبید بن ربیعہ کے اس شعر کی تعریف کی اور فرمایا کہ یہ شا عر کے ذریعہ کہی گئی سب سے سچی بات ہے :
ا لاکل شئی ما خلا اللہ باطل
یاد رہے کہ اللہ کے سوا ہر چيز باطل ہے
اللہ کے سوا ہر چيز باطل ہے ۔ کسی چيز کا اپنا خود مختار وجود نہیں ، سب اللہ کے حکم اوراس کی منشا کے تابع ہیں، انسان کو محدود معنوں میں بعض اختیارات دیے گئے ہیں لیکن وہ بھی در اصل اللہ کی منشا اور اس کے حکم کے ہی تابع ہے اور یہ وہ سچ ہے جسے پانے کے لیے بہت زیادہ غور وفکر کی بھی ضرورت نہیں ۔ ہر ہر قدم پر انسان کو اس کی بے بسی اس حقیقت سے آگاہ کرتی ہے لیکن وہ اس قدر فریب زدہ ہے کہ سچ دیکھنے کو آنکھ کھولنا نہیں چاہتا ، وہ مختلف حیلوں اور بہانوں سے خود کو اسی فریب میں بنائے رکھنا چاہتا ہے۔ تصور کیجیے کہ ایک ایسا فرد جسے یہ بھی نہیں پتہ کہ پل بھر بعد کیا ہوسکتا ہے ؟ بھلا اسے یہ فریب کیسے زیب دے سکتا ہے ؟ پل بھر میں وہ مرسکتا ہے ، اس کا بڑا سے بڑا منصوبہ ناکام ہوسکتا ہے ، اس کی امیدیں ٹوٹ سکتی ہیں ، اس کا سارا کھیل بگڑ سکتا ہےاور وہ عبرت بنا دیا جاسکتا ہے۔ غور کیجیے کہ ایسے شخص کی عقل مندی کس میں ہے ؟
کبھی خود اپنے بارےمیں غور کیجیے تو آپ اس نتیجے پر پہنچ جائيں گے کہ آپ کی زندگی کی زيادہ تر چيزیں آپ کے توقعات ، تصورات ، تیاریوں اور منصوبوں کے مطابق نہیں ، بہت سی ان جگہوں سے خیر کے سوتے پھوٹ پڑے جہاں سے آپ نے کوئی امید نہيں لگائی تھی اور بہت سی ان جگہوں سے آپ کو مایوسی ہوئی جہاں سے آپ نے خیر کی اچھی خاصی امید لگا رکھی تھی ۔ جہاں ناکامی کا ڈر ستا رہا تھا وہاں کامیابی ہاتھ لگ گئی اور جہاں کامیابی کی تمنا لیے بیٹھے تھے وہاں سے ناکامی کا سامنا ہوا ۔بہت سے عزائم ایسے تھے جو نہ معلوم کدھر کھو گئے اور بہت سے آپ نے وہ کام کرلیے جن کے بارے میں کوئی منصوبہ ہی نہیں تھا ۔ آپ نے سفر کہیں اور کا شروع کیا تھا اور چلنے کہیں اور کو لگے ۔ یوں آپ ایک ایسی گاڑی پر بیٹھے سفر کرتے رہے جو اصلا آپ کے اختیار میں نہیں تھی ، یہ آپ کی کم فہمی تھی کہ آپ نے اسے اپنے اختیارمیں سمجھ لیا اور نہ جانے کیا کیا منصوبے اور خاکے بنانے لگے ۔
پھر سوال یہ ہے کہ آپ عقل مند ہوتے تو کیا کرتے ؟یہی کرتے کہ سب کچھ جس کے اختیار میں ہے اس کی مرضی معلوم کرنے کی کوشش کرتے اور اس کے مطابق عمل کرنے میں لگ جاتے ۔پھر نہ تو کوئی دنیاوی کامیابی اترانے دیتی اور نہ کوئی دنیاوی ناکامی ناامید ہونے دیتی کہ تب آپ جانتے کہ ناکامی یا کامیابی کچھ بھی اس دنیا کی مستقل نہيں اور جو کچھ ہے بس اس رب کا انعام ، فضل اور مہربانی ہے یا پھر ابتلاء و آزمائش ہے اور ہر دو صورت میں ایمان والے کے لیے اس میں بھلائی ہے ۔ آپ ہر صورت میں محور اللہ پاک کی ذات کو بناتے اوریاد رکھتے کہ اس کا علم صرف اللہ کو ہے کہ آپ کے لیے کس کامیابی میں یا کس ناکامی میں بھلائی پوشیدہ ہے ۔کبھی پیچھے مڑ کر اپنی زندگی کے ماہ وسال کو غور سے دیکھیے اور ان بہت سے اہداف کے بارےمیں سوچیے کہ اگر وہ آپ نے حاصل کرلیے ہوتے تو آپ آج کہاں ہوتے اور غور کیجیے کہ اللہ نے کس طرح سے آپ کو آپ کے بہت سے اہداف سے بچاکر زیادہ اچھے مقاصد سے ہمکنار کردیا ۔غور کیجیے کہ کیسے ایک ایسا واقعہ رونما ہوا ، جس میں آپ کا ادنی سا بھی اختیار نہیں تھا ، یکایک ظہور پذیر ہوا اور آپ کے معمولات شب وروز یکسر بدل گئے ۔ رات جب سوئے تھے تو کچھ اور تھے اور جب صبح بیدار ہوئے تو کچھ اور ہی دنیا تھی اور آپ پوری طرح اس نئی دنیا میں تھے جس کے بارے میں آپ نے پہلے کوئی تصور بھی نہیں کیا تھا ۔کیا یہ اس حقیقت کا اظہاریہ نہیں کہ یہ کائنات بشمول ہم اور آپ اللہ پاک کی کامل دسترس میں ہیں اور ہوتا وہی ہے جو وہ چاہتا ہے ۔
اللہ کے سوا جو کچھ ہے ، باطل ہے ۔ میرنے کیا شعر کہا ہے ؛
بہت کچھ کہا ہے کرو میر بس
کہ اللہ بس اور باقی ہوس
عقل مند وہی ہے جو خود کو اللہ سے جوڑ لے ، اپنے سارے معاملات اسی کے سپرد کردے ، اسی کی مانے اور کسی کی طرف نہ دیکھے اور ہمیشہ یاد رکھے کہ اس در سے اٹھے گا تو کوئی در نہ ملے گا ۔اور یقین کرلے کہ اللہ اپنے پاس آنے والوں کو دھتکارتا نہیں ، جو اس کی طرف چل کر آتا ہے ، اللہ اس کی طرف دوڑ کر بڑھتا ہے اور جو اللہ کا ہو جاتا ہے ، اللہ اس کا ہو جاتا ہے اور جس کا اللہ ہو جائے تو پھر اس سے بڑھ کر کوئی سعادت ، کامرانی اور خوش بختی کیا ہوسکتی ہے ۔ داغ دہلوی نے کیا بڑی بات کہی ہے ؛
داغ کو کون دینے والا تھا
جو دیا اے خدا دیا تونے

ثناءاللہ صادق تیمی