لکڑی کی تلوار
✿✿✿
✍🏻 سرفراز فیضی
✿✿✿
جب اختلافات رونما ہوئے تو کچھ صحابہ دو فریقوں میں ایک فریق بن گئے اور بیشتر صحابہ ان اختلافات سے کنارہ کش رہے ، ابن سیرین فرماتے ہیں “جب فتنے واقع ہوئے تو دس ہزار سے زائد صحابہ با حیات تھے لیکن ان اختلافات میں شریک ہونے والے صحابہ سو تھے بلکہ تیس صحابہ بھی اس میں شریک نہیں ہوئے. (السنہ لابی بکر الخلال)
امام شعبی کہتے ہیں کہ جنگ جمل میں مہاجرین وانصار صحابہ میں سے صرف حضرت علی، عمار ، طلحہ اور زبیر شریک ہوئے (رضی اللہ عنھم اجمعین)، اگر کوئی پانچویں کا ثبوت دے دے تو میں کذاب ہوں۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ)
جو لوگ شریک ہوئے ان میں سے کئی اس پر نادم تھے۔
حضرت علی جب صفین سے لوٹے تو فرمایا : اے حسن اے حسن ! تمھارے باپ کو پتہ نہیں تھا کہ معاملہ یہاں تک پہنچ جائے گا، کاش میں اس سے بیس سال پہلے مر گیا ہوتا۔ ( منہاج السنہ)
جو صحابہ ان اختلافات میں فریق بنے ان کا اپنا اجتہاد تھا، جو ان میں درستگی پر تھے ان کے لیے دو اجر ہیں اور جن سے خطا ہوئی ان کے لیے بھی ایک اجر ہے۔ یہی اہل سنت کا اجماعی موقف ہے اور یہی ان صحابہ کا بھی موقف تھا ۔
قیس بن عباد کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا: ہمیں آپ (معاویہ رضی اللہ عنہ سے جنگ کے لیے) اپنی اس روانگی کے متعلق بتائیے کہ آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حکم ہے جو انہوں نے آپ کو دیا ہے یا آپ کا اپنا خیال ہے جسے آپ درست سمجھتے ہیں، وہ بولے: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی حکم نہیں دیا بلکہ یہ میری رائے ہے۔
( سنن ابی داؤد: 4666، قال الالبانی صحیح الاسناد)
جو صحابہ ان اختلافات سے کنارہ کش رہے ان کے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان اختلافات سے کنارہ کش رہنے کی صریح ہدایات موجود تھیں۔ عدیسہ بنت اہبان کہتی ہیں کہ جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ بصرہ کی طرف سے آئے تو میرے باپ کے پاس آئے اور کہا: ابو مسلم! کیا تم ان لوگوں کے خلاف میری مدد کرو گے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، پھر اپنی لونڈی کو بلایا اور کہا: لونڈی! میری تلوار نکال لاؤ۔ وہ تلوار لے آئی۔ انہوں نے ایک بالشت کے بقدر تلوار (میان سے) نکالی، وہ لکڑی کی تلوار تھی۔ پھر کہا: میرے دوست اور تیرے چچازاد (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) نے مجھے یہ وصیت کی تھی: ”جب مسلمانوں میں فتنے ابھر آئیں گے تو لکڑی کی تلوار بنا لینا۔“ اب اگر تم چاہتے ہو تو میں (یہ لکڑی کی تلوار لے کر) تمہارے ساتھ آ جاتا ہوں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے تیری اور تیری تلوار کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
(سنن ترمذی: 3960, سنن ابن ماجہ :3690 ، قال الالبانی حسن صحیح)
ایسی صورت حال میں سب سے محفوظ یہی جمہور صحابہ کا طبقہ تھا جو قاعدین میں تھا اور اختلافات سے کنارہ کش تھا،
خود حضرت علی فرمایا کرتے تھے کہ عبداللہ ابن عمر اور سعد مالک کا موقف بہت ہی اچھا تھا، اگر ان کا کنارہ کش ہونا نیکی تھا تو اس نیکی کا اجر بڑا عظیم ہے اور اگر گناہ تھا تو اس کا خطرہ بہت ہلکا ہے۔ ( منہاج السنہ)
ایسی صورت حال میں ایسے فتنہ پرور کتنے بڑی فراڈی ہیں جو اس کنارہ کش رہنے والے صحابہ کے تیسرے گروہ کو گول کر جاتے ہیں، ان کا سرے سے ذکر ہی نہیں کرتے اور جذباتی انداز میں پوچھتے ہیں کہ اس دور میں تم ہوتے تو علی کا ساتھ دیتے یا معاویہ کا۔
ہمارا جواب ہونا چاہیے کہ ہم وہی کرتے تو جو ان قاعدین صحابہ کرام نے کیا ، فتنوں کے وقت کنارہ کشی ۔
کیا ہی عظیم بات ہے جو حضرت عمر ابن عبد العزیز فرما گئے کہ ” یہ اللہ کا فضل ہے کہ اللہ نے ہماری تلواروں کو صحابہ کے خون سے محفوظ رکھا تو اب ہم اپنی زبانوں کو ان کے ذکر شر سے محفوظ رکھیں گے”
انتہائی گھٹیا اور ظالم ہے وہ شخص جو کہتا ہے کہ میں اپنی تلوار حضرت معاویہ پر رکھ دیتا ، ایسی بات کوئی زندیق اور متھم الاسلام ہی کہہ سکتا ہے۔
(سرفراز فیضی )