، عربی لغت میں روزہ کو ’’الصوم‘‘ کہتے ہیں جو باب صام یصوم وصیاما سے مصدرہے، اس لفظ کا مادہ ص۔ و۔ م اور صوم کا لغوی معنی ہے ”کام سے رُک جانا” کسی جگہ پر ٹھہر جانا۔ کھانے پینے، گفتگو کرنے اور چلنے سے رک جانے کو بھی صوم کہتے ہیں۔ لغوی معنی کے لحاظ سے ”صوم” کا اطلاق صرف روزے پر ہی نہیں ہوتا بلکہ عربی میں کہتے ہیں۔ صامت الریح ہوا تھم گئی۔ صام النھار ظہر کا وقت ہو گیا (کیونکہ اس وقت آفتاب نصف النہار پر رکا ہوتا ہے۔) اس سے پھر ”صامت الشمس” بھی کہا جاتا ہے یعنی سورج نصف النہار پر مرکوز ہے۔ لہٰذا ”صوم الصائم” سے مراد کھانے پینے اور ان تمام امور سے باز آجانا ہے جن سے اسے منع کیا گیا ہو۔ گفتگو سے رک جانے کو بھی ”صوم” ہی کہتے ہیں۔ سورۂ مریم میں ہے:﴿إِنّى نَذَرتُ لِلرَّحمـٰنِ صَومًا…٢٦﴾… سورة مريم”(کہ بے شک میں نے خدا کی رضا کی خاطر چپ کا روزہ رکھا ہے)اور ساتھ ہی تشریح بھی کر دی:﴿فَلَن أُكَلِّمَ اليَومَ إِنسِيًّا ﴿٢٦﴾… سورة مريم” (کہ میں آج کسی انسان سے بات نہ کروں گی)قرآن مجید ہی سے ثابت ہے کہ حضرت مریم ؑ کا وہ روزہ کھانے پینے سے رُک جانے کا نہ تھا کیوں کہ اس سے پہلے خود خدا وند کریم کی طرف سے انہیں حکم ہوا تھا:﴿فَكُلى وَاشرَبى﴾ (کھجوریں کھا اور چشمے کا پانی پی، ہاں اگر کوئی آدم زاد آئے تو کہہ دینا میں نے خدا کی رضا کے لئے چپ کا روزہ رکھا ہے۔”عربی میں بعض اوقات ”قائم” کو ”صائم” بھی کہتے ہیں اس لئے کہ وہ اپنی جگہ پر ساکت ہوتا ہے۔ نابغہ کا ایک شعر ”صوم” کے اس لغوی معنی کو واضح کرتا ہے:خَیْلٌ صِيَامٌ وَّ خَيْلٌ غَيْرُ صَائِمَةٍ تَحْتَ الْعَجَاجِ وَخَيْلٌ تَعْلُكُ اللُّجَمَاغبار جنگ كے سایے تلے کچھ گھوڑے ثابت قدم (صائم) ہیں اور کچھ گھوڑے حرکت کرتے ہوئے (غیر صائمہ) اپنی لگاموں کو چبا رہے ہیں،اس ساری بحث سے یہ نتیجہ منتج ہوا کہ صوم کا لغوی معنی ہے ”کام سے رک جانا” خواہ وہ کسی نوعیت کا ہو۔اصطلاح شریعت میں صوم کی تعریف اس طرح کی جاسکتی ہے:’’الامساک عن المفطرات مع اقترانہ النیۃ من طلوع الفجر الی غروب الشمس‘‘ (تفسیر قرطبی (۱/۶۵۰)فتح البیان فی مقاصد القران(۱/۳۶۲)’’یعنی طلوعِ فجر سے لیکر غروبِ آفتاب تک تمام مفطرات سے اس طرح رک جانا کہ (مکمل روزے کی ) نیت شاملِ حال رہے‘‘روزہ کب فرض ہواروزہ ایک ایسی عبادت ہے جو ہر نبی اور اس کی امت پر فرض کی گئی ،کوئی امت روزہ کی فرضیت سے خالی نہیں رہی، اللہ تعالیٰ کا فرمان :{ کَمَاکُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ} (البقرۃ:۱۸۳) } اس کی دلیل ہے۔ امام مجاہد کا قول ہے:’’کتب اللہ عزوجل صوم شھر رمضان علی کل أمۃ‘‘یعنی( اللہ تعالیٰ نے رمضان کا روزہ ہر امت پر فرض کیا تھا۔) (تفسیر قرطبی۱/۶۵۱) اللہ تعالیٰ نے سابقہ تمام امتوں پر روزہ فرض قرار دینے کی خبر ہمیں اس لئے دی تاکہ ہماری نظروں میں اس کی اہمیت اور قدرومنزلت مزید بڑھ جائے،مزید رغبت پیدا ہوجائے ،نیز یہ کہ روزہ آسان لگنے لگے؛کیونکہ کوئی بھی مشکل چیز جب عمومیت اختیار کرجائے تووہ آسان ہوجاتی ہے۔ہمارے روزے کو سابقہ اقوام کے روزے سے تشبیہ دینا باعتباراصلِ وجوب ہے، یعنی جس طرح سابقہ اقوام پر روزہ فرض تھا اسی طرح ہم پر بھی فرض ہے یہ تشبیہ باعتبار کیفیت ِ صوم نہیں ہے؛کیونکہ ہمارے اور سابقہ اقوام کے روزہ کی کیفیت میں فرق تھا، چنانچہ ان کا ر وزہ عشاء کی نماز سے شروع ہوکر غروبِ آفتاب تک جاتا،جبکہ ہمارار وزہ ابتداء فرضیت میں اسی طرح تھا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے آسانی پیدافرماتے ہوئے طلوعِ فجر سے غروبِ آفتاب تک مقرر فرمادیا۔سابقہ اقوام نے اپنے روزہ کے ساتھ اچھا سلوک نہ کیا ،چنانچہ یہودیوں نے رمضان المبارک کی جگہ روزے کیلئے پورے سال کا صرف ایک دن مقرر کرلیا،جو ان کے زعم میں فرعون کے غرق ہونے کا دن تھا،جبکہ عیسائیوں نے جب یہ دیکھا کہ رمضان المبارک تو شدید گرمی کے موسم میں آتا ہے تو انہوں نے قمری مہینہ کی جگہ ایک ایسا شمسی مہینہ تجویز کرلیا جو ہمیشہ موسمِ بہار میں آئے۔قولہ تعالیٰ:{اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ أَرْبَا بًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ}(التوبہ :۳۱)ترجمہ:(ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایاہے) میں یہود ونصاری کی اس قسم کی باطل روش کی تفنید وتردید ہے۔اس لحاظ سے امت محمدیہ بے شمار آفرین اور شاباش کی مستحق ہے کہ جس نے سابقہ اقوام کی روش کے بالکل برعکس روزے کا حق ادا کردیا،اور کسی بھی مقام پر کسی بھی موسم کی شدت یا روزے کی طوالت ان کے آڑے نہ آسکی اور نہ ہی کسی قسم کی رکاوٹ بن سکی (فللّٰہ الحمد والمنۃ)،اُمتِ محمد یہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ر و ز ہ کب فرض ہوا؟اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت پرپیر کے دن ۲ شعبان ۲ھ میں روزہ فرض فرمایا،گویا رسول اللہ کی بعثت کے پندرھویں سال روزے کی فرضیت نازل ہوئی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ ومبارکہ میں نو مرتبہ رمضان کا مہینہ آیا۔روزے کی فرضیت میں اسقدر تاخیر کا سبب بیان کرتے ہوئے علامہ جمال الدین القاسمی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:’’ ولما کان فطم الناس عن مألوفاتھا وشھواتھامن أشق الأموروأصعبھا تأخر فرضہ إلی وسط الاسلام بعد الھجرۃ لما توطنت النفوس علی التوحید والصلاۃ وألفت أوامر القرآن ،فنقلت إلیہ بالتدریج…‘‘(محاسن التأویل۳/۴۱۶) ’’ چونکہ کھانا پینا اور دیگر شہوات کا ترک لوگوں کیلئے انتہائی مشکل اور دشوار امر ہے، لہذا اللہ تعالیٰ نے (ازراہِ شفقت ومحبت ) روزے کی فرضیت کو ہجرت کے بعد تقریباً وسط اسلام تک مؤخر رکھا،چنانچہ لوگوں کے نفوس اور طبائع توحید اور اقا متِ صلاۃ پر پختہ ہوگئے ،اور وہ اوامرِقرآن سے خوب مانوس ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے روزہ کی فرضیت نازل فرمادی،اور اس میں بھی تدریج کا پہلو پسند فرمایا(تاکہ اس عظیم عبادت کی ادائیگی میں کسی کوتاہی کا مظاہرہ نہ ہونے پائے )‘‘( منقول ازکتاب، روزہ حقیقت وثمرات صفحہ نمبر 18 تا 24)روزہ کے حِکَمْ ومقاصدعلماء کرام نے روزہ کی بہت سی حکمتیں بیان فرمائی ہیں،لیکن سب سے بڑی حکمت اورسب سے ارفع وا علیٰ مقصدوہ ہے جس کا اللہ رب العزت نے اپنے مقدس کلام میں ذکر فرمایا ہے:{ یَاأَ یُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَاکُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ} (البقرۃ:۱۸۳) ترجمہ:(اے ایمان والو!تم پرروزے رکھنا فرض کیا گیاجس طرح تم سے پہلے لوگوں پر (صوم)فرض کیاگیاتھاتاکہ تم تقویٰ اختیار کرو)اس آیت میں روزہ کی حکمت یہ بیان فرمائی کہ یہ تقویٰ کا باعث ہے جس کی تفصیل یوں ہے کہ روزہ دوسری تمام عبادات سے بوجوہ منفرد ہے کہ یہ رب اور بندے کے درمیان راز و نیاز کا معاملہ ہے جبکہ دوسری تمام عبادات مثلاً نماز، حج اور قربانی وغیرہ ظاہری عبادات ہیں جو ظاہری حرکات و سکنات سے بے نیاز ہونے کے باعث ریا جیسی بیماری سے جو کہ بڑی بڑی عبادتوں پر پانی پھیر سکتی ہے۔ محفوظ و مامون ہے اس لئے کہ روزہ دار کے روزہ کی حقیقت (کہ وہ روزے سے ہے یا نہیں) رب تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر ایک آدمی وضو کرتے ہوئے تین دفعہ کلی کرتا ہے۔ اس وقت پانی اس کے منہ میں ہوتا ہے۔ وہ چاہے تو اس پانی کا اکثر حصہ اپنے حلق میں اتار سکتا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس کی اس حرکت کو نہیں دیکھ سکتی۔ لیکن ایک چیز اسے پانی کا ایک قطرہ بھی شدید پیاس کے باوجود حلق میں پانی اتارنے سے باز رکھتی ہے اور یہ چیز رب کریم کا خوف ہے جس کا دوسرا نام تقویٰ ہے کہ محض اللہ تعالیٰ کے ڈر سے اپنی خواہش پر اس نے غلبہ پالیا اور یہ تقویٰ (خواہشات پر کنٹرول) انسان کی ساری زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے مثلاً اگر وہ دوکاندار ہے تو میزان میں کمی بیشی کا مرتکب نہ ہو گا اگر کپڑے کا تاجر ہے تو ماپ میں ہیرا پھیری کی خواہش کا گلا گھونٹ دے گا۔ اگر کسی میڈیکل ہال کا مالک ہے تو دواؤں پر ناجائز منافع حاصل کر کے حصولِ زر کی خواہش کا احترام نہ کرے گا اور اگر ڈاکٹر ہے تو پانی میں رنگ ملا کر غریب مریضوں کا خون چوسنے اور اس طرح زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کی خواہش کا حصول اس کے لئے ناممکن ہو گا۔ علیٰ ہذا القیاس روزہ انسان کے نفس کی اس طرح سے تربیت کرے گا کہ ہر لمحہ خوفِ خدا اس کو گناہوں سے باز رکھے گا اوررضا ۓالٰہی کا حصول اس کا مقصود مطلوب ہو گی جو خداوند کریم سے اس کی قربت کا باعث بنے گی،محترم قارئین : جسدِ انسانیت سے مادیت کے طوفان ہر آن اُٹھتے رہتے ہیں اگر ان طوفانوں کے سامنے بند نہ باندھا جائے تو یہ خاکی بدن ہویٰ و ہوس کا مظہر بن کر رہ جائے، خواہشاتِ نفسانی اس قدر سرکش اورغالب ہو جائیں کہ انسان ان پر کنٹرول نہ کر سکے۔ اور شہوات وشبہات کے دام فریب میں پھنس جاۓ ، لہٰذا رب کریم نے ضبطِ نفس اور مادیت کے غلبے سے بچانے کے لئے روزے جیسے عظیم عبادت کا انعام اسے عطا فرمایا تاکہ اس کی روح اور جسم میں توازن برقرار رہے اور نفسِ انسانی مطیع و منقاد ہو کر خدا کی یاد میں مگن رہے۔شیخ عبد اللہ آل بسام نے ’تیسیر العزیز العلام شرح عمدۃ الاحکام‘‘(۱/۴۲۱) میں انتہائی جامعیت کے ساتھ روزہ کی دینی،اجتماعی ،اخلاقی اور صحتِ انسانی کے متعلق کچھ حکمتیں بیان فرمائی ہیں،انہی کے نفیس کلام کا خلاصہ ملاحظہ کیجئے۔روزہ کی بلند ترین حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان عبادت ہے ،چنانچہ روزہ دار غلبہ شہوت کا قلع قمع کرتے ہوئے مکمل خشوع وخضوع کے ساتھ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہے،اور ظاہر ہے کہ نفسِ انسانی جب خوب سیر ہو تو اسے مستی سوجھتی ہے{کَلَّا اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰی۔أَنْ رَّاٰہُ اسْتَغْنٰی } ترجمہ:(سچ مچ انسان تو آپے سے باہر ہوجاتاہے،اس لئے کہ وہ اپنے آپ کو بے پرواہ (یاتونگر) سمجھتا ہے)(العلق:۶،۷)لیکن روزہ رکھ کر انسان جب بھوک اور پیاس کی شدت کی بناء پر اپنے عجز وضعف کو ملاحظہ کرتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ نفس کے کِبر اور بڑائی کی تو کوئی حقیقت نہیں،نتیجۃً وہ اپنے رب کیلئے بھی مسکین ورقیق القلب ہوجائے گا،اور مخلوقات کیلئے بھی نرم دل ۔روزہ کی اجتماعی حکمت یہ ہے کہ پوری خلق ایک ہی وقت میں ایک عبادت پر مجتمع ہوتی ہے ،چنانچہ خواہ کوئی طاقت ور ہویا کمزور،شریف ہو یا وضیع، مالدار ہویافقیر سب نے ایک ساتھ ہی روزہ شروع کرنا ہے اورایک ہی وقت میں افطار کرنا ہے ،سب نے اکٹھے بھوک اور پیاس کی تکلیف کو جھیلنا ہے …یہ چیز قلو ب وارواح میں باہمی ربط، الفت اور محبت پیدا کرنے کا عظیم سبب بن جائے گی،لوگ ایک دوسرے کے ساتھ شفقت ور حمت کا برتاؤ کرینگے،بالخصوص مالدار کہ جنہیں بھوک اور پیاس برداشت کرکے معاشرہ کے غریب،تباہ حال اور پسے ہوئے اپنے بھائیوں کی بھوک اور پیاس کا احساس ہوگا…وہ یہ بات سوچنے پر مجبور ہوگا کہ وہ بھوک اور پیاس جسے اس نے صرف ایک ماہ مشکل سے برداشت کیا ،اس کا غریب بھائی اور اس کا پورا کنبہ پورا سال برداشت کرتا اور جھیلتاہے،اس سے یقینا اس کے دل میں سخاوت کا احساس پیدا ہوگا،دلوں کی تفریق ،عداوتیں اور رنجشیں دور ہونگی،ان کی جگہ محبت اور بھائی چارہ کی فضاء استوار ہوگی،نتیجۃً تمام طبقاتِ انسانی میں وہ سلامتی رائج ہوجائے گی جو دینِ اسلام کو مطلوب ہے ۔روزہ کی اخلاقی وتربوی حکمت یہ ہے کہ صبر وتحمل کا درس دیتا ہے، عزیمت و اراد ہ کو قوت واستحکام بخشتا ہے، مشاکل ومصائب کا حملہ ہوتو خندہ پیشانی سے جھیلنے بلکہ ان کا مقابلہ کرکے انہیں زیر کرنے کی ٹریننگ دیتا ہے۔ روزہ صحتِ انسانی کے تعلق سے بڑی پُر حکمت عبادت ہے ،چنانچہ انسانی معدہ بیماریوں کا گھر ہے اورپرہیز (خلوِمعدہ) تمام دواؤں کی سردار ہے،معدے کو آرام وراحت کا وقفہ چاہئے،کیونکہ بلاناغہ اور مسلسل کھانے پینے کی وجہ سے وہ بُری طرح تھکاوٹ کا شکار ہوجاتا ہے،لہذا اس طویل ترین مشقت کے بعد اسے اس کے آرام کا مکمل حصہ دستیاب ہونا چاہئے تاکہ وہ استراحت کے اس وقفہ میں جسم سے زائد فضلات اور فاسد اخلاط کو جارج کرکے ،نیز جسم میں جمی ہوئی زائد چربی کو پگھلا کر ازسرِ نو ہضمِ طعام کیلئے فعال اور روادواں ہوجائے۔‘‘(انتہیٰ بتغیر یسیر)روزے کے مادی اور روحانی فوائد ،معزز قارئین! اسلامی عبادات میں ظاہری اور باطنی ہر قسم کی طہارت ،نفاست و پاکیزگی کا التزام ہر جگہ موجود ہے۔ نماز اگر آئینہ دل کو مجلّٰی اور مصفٰی کرتی ہے تو وضو جسمانی طہارت اور پاکیزگی کے لئے نماز کی اوّلیں شرط قرار پایا۔ اسی طرح اگر عورت کو نقاب اوڑھنے کا حکم دیا تو ساتھ قید بھی لگائی:﴿وَقُل لِلمُؤمِنـٰتِ يَغضُضنَ مِن أَبصـٰرِهِنَّ…٣١﴾… سورة النورکہ اے رسول ﷺ! مومن عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔اور یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ جس عورت کی نگاہ عصمت و عفت اور فطری حیا سے خالی ہے۔ اس کے لئے اگر لاکھ نقابوں کا اہتمام بھی کر لیا جائے تو وہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا جس کے لئے ”یغضضن من ابصارھن” کی ضرورت پیش آئی۔روزہ بھی اس حکمت سے خالی نہیں۔ روزہ سے جہاں انسان کی باطنی طہارت اور روحانی صحت کا التزام کیا گیا ہے وہاں اس کی جسمانی صحت اور نظامِ انہضام کی خرابیوں کا علاج بھی اس میں موجود ہے۔،پھر یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ کثرت خوری اور وقت بے وقت کھانا معدے کی امراض کا موجب ہیں۔ اس سے جسمانی نشوونما صحیح طریق پر نہیں ہوتی بلکہ غیر متناسب غذا اور کھانے کے غیر متعین اوقات کی بدولت اکثر لوگ لبِ گور پہنچ جاتے ہیں۔ سال بھر کی ان بے قاعدگیوں کو روکنے اور صحت اور تندرستی کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے کے لئے یہ لازم تھا کہ انسانوں کو تیس روز تک پابند کیا جاتا کہ وہ متعینہ وقت پر کھائیں پئیں اور مقررہ وقت کے بعد کھانے پینے سے ہاتھ کھینچ لیں۔ یہ کیسی حکمت ہے کہ عبادات کے ساتھ ساتھ انسان جسمانی صحت بھی حاصل کرتا ہے اور روح کی بالیدگیوں کے ساتھ ساتھ اس کی جسمانی صحت بتدریج کمال حاصل کرتی جاتی ہے۔ تجربہ شاہد ہے کہ رمضان میں اکثر لوگوں کی جسمانی بیماریاں محض کھانے کے اوقات کی پابندی کی بنا پر خود بخود دور ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ بڑے بڑے مفسرین اور ائمہ مجتہدین نے روزے کی دوسری حکمتوں کے ضمن میں حکمتِ صحتِ جسمانی کا ذکر بھی کیا ہے۔بسیار خوری سے مادیت کا غلبہ بڑھتا ہے اور شہوانی جذبات حملہ آور ہوتے ہیں۔ روزے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ دن بھر بھوکے پیاسے رہنے سے جسمانی اعضاء میں کچھ کمزوری آجاتی ہے جس سے شہوانی جذبات کے حملے ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔ بھوک اور پیاس جنسی جذبات کی برانگیخت کو کچل دیتے ہیں۔رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے:”الصوم جنة” کہ روزہ ڈھال ہے۔اس سے مراد صرف یہی نہیں کہ یہ صرف دوزخ کی آگ سے ڈھال ہے بلکہ اس سے یہ بھی مراد ہے کہ روزہ جنسی ہیجان نیز مادی او روحانی ہر قسم کی بیماریوں کے لئے ڈھال ہے اس طرح کہ بھوک پیاس اس کی جنسی خواہشات کو دبا کر اسے خداوند کریم کی طرف راغب کرتے ہیں۔ بخاری اور مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے:«یا معشر الشباب من استطاع منكم الباءة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحفظ للفرج ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإن له وجاء»کہ اے نوجوانو! تم میں سے جسے نکاح کرنے کی توفیق ہو اسے چاہئے کہ ضرور نکاح کرے، کیونکہ نکاح شرم و حیا اور شرمگاہ کی حفاظت کے لئے سب سے زیادہ مفید ہے اور جس نوجوان کو نکاح کی استطاعت نہ ہو اسے لازم ہے کہ وہ روزے رکھے کیونکہ روزہ جنسی ہیجان کا تدارک کرتا ہے۔تین طرح کے روزہ دار ، علامہ ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ نے روزے کے تین مراتب بیان فرمائے ہیں:(۱) عام لوگوں کا روزہ ۔(۲) خاص لوگوں کا روزہ۔(۳) خاص الخاص لوگوںکا روزہ۔عام لوگوں کا روزہ صرف پیٹ اور شرمگاہ کی خواہشات اور شہوات سے بچاؤ کا نام ہے ،خاص لوگوں کا روزہ پیٹ اور شرمگاہ کی خواہشات وشہوات سے بچاؤ کے ساتھ ساتھ ،نگاہ،زبان ہاتھ پاؤں ،کان اور دیگر اعضاء کو ہر قسم کے گناہ سے محفوط رکھنے کا نام ہے۔جبکہ خاص الخاص لوگوں کا روزہ یہ ہے کہ مذکورہ تمام امور کو ملحوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے قلب کو بھی اس قدر محفوظ بنالیں کہ اس میں ایسے افکار وخیالات کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے جو بندے کو اللہ تعالیٰ سے غافل کرنے یا دور کرنے کا سبب بن جائیں۔اب ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے آپ کو چیک کریں صرف دوسرے پر تبصرہ ہی نہ کرۓ کبھی کبھی اپنے آپ کا بھی حساب کتاب کیجئے کہ آپ ان مذکورہ بالا قسموں میں سے کس قسم میں آتے ہیں ، روزہ اور ہمارا طرزِ عمل، رمضان المبارک کا روزہ جن مقاصد حسنہ کی تحصیل کے لیے فرض کیاگیا تھا، ہمارے سلف صالحین نے روزہ کے آداب وواجبات ،مستحبات کی رعایت کرکے ان مقاصد کو پورے طور پر حاصل کیا۔ وہ حضرات دن کو روزہ رکھتے تھے اور راتوں کو ذکر وفکر اور نماز و تلاوت ،قرآن کی تفسیر وتشریح کو سمجھنے میں مشغول رہتے تھے اور رمضان المبارک کے ایک ایک لمحہ کو اللہ کی عبادت میں گذارتے تھے، وہ اپنی زبانوں کو بیہودہ گوئی سے بند رکھتے تھے اور کانوں کو لغو اور فحش باتوں کے سننے سے محفوظ رکھتے تھے، ان کی آنکھیں حرام چیزوں کی طرف قطعاً نہیں اٹھتی تھیں۔ اس طرح اُن کے تمام اعضاء روزہ سے رہتے تھے؛ لیکن آج ہمارا یہ حال ہے کہ ہم اس مبارک مہینہ کو بھی دیگر مہینوں کی طرح ضائع کردیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے روزہ کو اس لیے فرض کیاتھا کہ اس کے ذریعہ روح و قلب کو فائدہ پہنچے؛ ایمان میں تازگی آۓ ، محاسبہ کرنے کی عادت بناۓ ، مگر ہم نے روزہ کو پیٹ اور معدہ کو پُر کرنے کا مہینہ بنالیا۔ اللہ نے اُسے حلم و صبر کے حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا تھا؛ مگر ہم نے اُسے غیض وغضب اور غم وغصّہ کا مہینہ بنالیا ، اللہ تعالیٰ نے اُسے سکینت و وقار کا مہینہ بنایا تھا؛ مگر ہم نے اُسے گالی گلوج اور لڑائی جھگڑے سرپھٹول کا مہینہ بنالیا، اللہ تعالیٰ نے روزہ کو اس لیے فرض کیا تھا کہ ہماری عادتوں میں تبدیلی آئے؛ مگر ہم نے سوائے کھانوں کے اوقات میں تبدیلی پیدا کرنے کے کچھ نہیں کیا۔ع ببیں تفاوتِ رہ از کجاست تا بہ کجا، رمضان کے ایام میں ہم سے ہونے والی چند مشہور غلطیاں ، 1۔ افطار وسحور ، مأکولات ومشروبات کی خرید وفروخت میں حددرجہ مبالغہ آمیزی ! جب بھی رمضان کی آمد آمد ہوتی ہے بہتیرۓ مسلمان اشیاء خورد و نوش ،سحری ،افطارکے سامان دسترخوان کو بھانت بھانت کے مأکولات ومشروبات ،حلویات ، کھٹے میٹھے لذت آمیز چیزوں سے سجانے کی فکر لاحق ہوجاتی ہے ، ہزاروں کی شوپنگ ہوتی ہے ، بلکہ اسراف و تبذیر کا واضح عملی نمونہ موسم رمضان میں نظر آتا ہے ، آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ افطار وسحری کے لئے جتنے اہتمام سے مختلف کھانے پینے کی چیزیں زیب دسترخوان ہوتے ہیں اتنے میں تو فقراء وصعالیک کی ایک بڑی جماعت آسودہ ہوسکتی ہے ، 2 ۔ سحری تناول کرنے میں بعض لوگ افراط و تفریط کے شکار ہیں ، یعنی آدھی رات کو ہی کچھ لوگ کھاپی کر سوجاتے ہیں اور کچھ لوگ آذان کے ختم ہونے تک کھاتے پیتے رہتے ہیں ، 3 ۔ افطاری کرنے میں تاخیر،4 ۔ آذان فجر کے دوران بھی کھاتے پیتے رہنا ،5 ۔ افطار کے وقت دعاء نہ پڑھنا ، 6 ۔ افطار تناول کرنے میں مشغول رہنا اور آذان کاجواب نہ دینا ، 7 ۔ از راہ احتیاط طلوع فجر سے قبل ہی کھانا پینا چھوڑ دینا ، 8 ۔ نصف رات کو ہی سحری کھاکے سوجانا ،9۔ بھول کر حالت روزہ میں کھانے پینے والے کو دیکھنے والے کا نہ ٹوکنا یہاں تک کہ پورا ختم کردۓ ، 10۔ عورتوں کو کھان پان پکانے اور مطبخ کے کام میں ہی مشغول رکھنا ، یا درکھیں کہ رمضان کے اعمال و عبادات مثلاً: نماز، روزہ،صدقات و خیرات، تراویح، اذکار، تلاوت قرآن مجید، دعا و مناجات وغیرہ جیسے مردوں کے لیے ہیں اسی طرح عورتوں کے لیے بھی ہیں، ان اعمال کی ادائیگی پر جس طرح مردوں کو اجر و ثواب ملتا ہے اسی طرح خواتین کو بھی ثواب حاصل ہوتا ہے،11 ۔ مردوعورتوں کا صلاۃ مغرب کی ادائیگی میں تاخیر کرنا ، افطاری کے بعد سو جانا اور تراویح کی نماز نہ پڑھنا ، 12 ۔ صلاۃ فجر کی ادائیگی میں غفلت و کسلمندی سے کام لینا ، 13۔ رمضان کے ایام میں پورا دن سوتے رہنا ، 14۔ ماہ رمضان کو چھٹی کے ایام اور سیر وتفریح کے لمحات سمجھ کر گھومنے پھرنے اور موج مستی میں گزار دینا ، 15۔ رمضان کے روزے کو بوجھ سمجھنا ، اور طرح طرح کی باتیں بنانا ، مثلاً اتنا لمبا دن ، مختصر رات ،گرمی اپنے شباب پر ، تیس اونتیس دن تک ۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ، 16 ۔ ماہ رمضان میں نوجوانوں کا موبائل انٹرنیٹ و شوسل میڈیا کا حد سے زیادہ استعمال کرنا کہ وقت نہیں گزررہا ہے ، یہاں تک کہ بعض نوجوانوں کا تراویح چھوڑ کر آئی پی ایل میچ دیکھنا ، یا پب جی ولوڈو گیمس وغیرہ کھیلنا ، 17 ۔ شب قدر میں رات رات بھر وعظ کرنا ،وسننا ، یا رات نہ گزرے تو پارٹی وپکنک میں وقت ضائع کرنا ، 18 ۔ روزہ کی حالت میں بھی منشیات سگریٹ ،کھینی ،گُل وغیرہ کا استعمال کرنا ، محترم قارئین : روزہ ایک تربیتی مدرسہ ہے ، روزہ تقویٰ کا سبق دیتا ہے ، روزہ شہوات وشبہات کے فتنے سے بچنے کا راستہ بتاتا ہے ، روزہ سکھاتا ہے کہ ماضی کے غلطیوں کو نہ دہرایا جاۓ ، اور مستقبل حصول علم وعمل، دعوت وارشاد اور خدمت دین میں گزرے ،روزہ کا پیغام ہے کہ رذیل وخسیس حرکتوں سے اپنے آپ کو کیسے محفوظ رکھا جائے ،زندگی کیسی گذاری جاۓ، دنیا میں کیسے رہا جائے ،خواہشات پر قابو کیسے پایا جاۓ مچلتے نفس کو کیسے منایا جاۓ ۔ روزہ ایک مسلسل عبادت ہے اور روزہ دار سحری سے غروب آفتاب تک کا سارا وقت خدا کی عبادت میں بسر کرتا ہے۔ ایک نماز پڑھ لینے کے بعد ممکن ہے۔ آپ دوسری نماز تک یاد خدا سے غافل ہو جائیں۔ کاروبارِ حیات میں غفلت انسان کو خدا سے دور رکھتا ہے لیکن جب اس کے دل میں یہ احساس جاگ اُٹھتا ہے کہ وہ خدا کی خوشنودی کی خاطر بھوک پیاس کو برداشت کرنے کی پابندی قبول کر چکا ہے تو وہ اس کوشش میں رہتا ہے کہ اس کا کوئی بھی لمحہ یادِ خدا ،ذکر واوراد اور خیر و بھلائی سے غفلت میں بسر نہ ہو۔ چہ خوب ؎صرفِ عصیاں ہوا وہ لحظۂ عمرجو تری یاد میں بسر نہ ہوااللہ تعالیٰ ہمارے ظاہر وباطن کو پاکیزہ بناۓ ،تقوی کی زندگی نصیب کرۓ ،علم وعمل کی حیات دۓ ، ماہ رمضان کے خیر وبرکات کو سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ،