Posted on Leave a comment

گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا: محمد محب الله بن محمد سيف الدين المحمدی

الحمدلله والصلاة والسلام على نبيه ومصطفاه محمد وعلى آله وأصحابه وأتباعه ومن والاه ، اللهم أجرنا في مصيبتنا ،واخلف لنا خيرا منها ،
رحلت يا شيخنا (نیازالمدنی) والأرض مجدبة ،
وكنت بالعلم أبراقا وأمطارا ،
اس كارگاه ہستي ميں انسانوں کی آمد ورفت کا سلسلہ ابتداء ہی سے جاری ہے، چمنستان دہر کا ہر پھول اپنی جداگانہ حیثیت اور شناخت کے ساتھ آتا اور چلاجاتا ہے، ہمارے شیخ نیاز احمد طیب پوری مدنی رحمۃ اللہ علیہ کو اس عالم خاک وبو میں تقريبًا 60 سال کی فرصت حیات ملی
7,1,1963ءمیں انھوں نے اس جہان ناسوت میں آنکھ کھولی ،
ء 3,10,2022 میں آنکھوموند لی ، اور اپنے پیچھے سوگواروں کا ایک انبوہ چھوڑ گئے ، آپ تو چلے گئے لیکن آپ کی یادیں ، ذکریات ، جہود ،مساعی ،مآثر ،مناشط ،و خدمات کا چمن لہہ لہا رہا ہے ،
ما مات من ذكره باقٍ وسيرته
في كل قلب لها فيض وأنوار ،
یوں تو دنیا میں آنے والے ہر انسان کو ایک نہ ایک دن جاناہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن علم و ادب کا نفیس ذوق رکھنے والی ایک ایسی بالغ نظر ، روشن دماغ اور پہلو دار شخصیت کی وفات جس کا وجود سائبان کی طرح ہو، جس کی حیثیت گویا شمس و قمر کے مانند ہو کہ اس کی ضیا پاشیوں سے ایک دنیا منور ہو، اور جس نے ایک لمبے عرصے تک تعلیم وتدریس کی بساط بچھائی رکھی ہو اور علم و عرفان کی قندیلیں روشن کی ہوں، اور دین حق کا صحیح شعور،منہج سلف اور اسلام کی حقانیت عام کرنے میں اپنی پوری طاقت نچوڑ دی ہو، ایسے با فیض معلم ومربی کی وفات انتہائی دکھ وافسوس اور رنج وغم کی بات ہے، اور انسانی تاریخ کا بہت بڑا نقصان ہے،
گویا شاعر کی زبانی ،
سورج کی موت چاند ستاروں کی موت ہے
وہ ایک کی نہیں ہے، ہزاروں کی موت ہے
أيها الراحل المحبوب معذرة
اذا طغي من بحار الحزن تيار ،
شیخ سے پہلا تعارف :
بات 2016ء کی ہے جب میرا داخلہ جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں میں ہوا ، ایک دن شام میں مسجد عائشۃ الدعیج میں شیخ نیاز رحمہ اللہ سے میرا علیک سلیک ہوا ، اور یہ پہلی بالمشافہ ملاقات ہے شیخ سے میری ، یوں تو شیخ کے کئی مضامین اور اداریہ صوت الحق والبلاغ میں پڑھ چکا تھا ، غایبانہ عقیدت تو مدت مدید سے تھی ،
اس ملاقات نے عقیدت ومحبت کو دوبالا کردیا ، اتنی اپنائیت ،محبت، وتپاک سے ملے کہ میں رام ہوگیا ،
جامعہ پہنچنے کے چند دنوں بعد ہی شیخ کا پہلی دفعہ خطبۂ جمعہ سنا ، خطبہ اتنا پرتأثیر تھا کہ ابھی تک اس خطبے کے بعض اہم نکات ذہن کے گوشے میں محفوظ ہے ، شیخ کا موضوع تھا ” انسانی زندگی میں گناہوں کے اثرات ” میں نے دیکھا کہ بہت سارے طلاب شیخ کے خطاب کو اپنی ڈائری میں نوٹ کررہے ہیں ،
یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار ورسن کہاں ،
شیخ رحمہ اللہ کی اکثر گھنٹیاں کلیہ عائشہ میں تھیں ،تاہم ایک دو گھنٹی غالباً مسلم شریف وغیرہ آپ کلیہ کے طلباء کو پڑھاتے تھے ،
شیخ سے میں نے بھی استفادہ کی کوشش کی تھی بعض دفعہ عصر کی نماز کے بعد جب شیخ مسجد سے نکلتے تو میں آپ کے پیچھے لگ جاتا درس کے متعلق یا خارج درس کے سوالات کرتا اور شیخ سے مستفید ہوتے رہتا یہاں تک کہ آپ فرینہ منزل تک پہنچ جاتے ، کئی دفعہ شیخ نے مجھے اپنے گھر اور لائبرری میں بلایا ، اور بعض کتابیں بھی دکھائی ،
شیخ دعوتی مزاج کے تھے ، ملت کادرد وتڑپ تھا ، آپ مسلمانوں کی تعلیمی پستی وزبوں حالی کو دیکھکر کافی بے چین رہتے تھے ، نوجوانوں کے بگڑتے ہوئے حالات اور سماج ومعاشرے کی گندی سیاست واوچھی حرکت سے آپ کافی غمگین رہتے تھے ، شیخ نے اس طرح کے کئی واقعہ کا ذکر کیا ہے خوف طوالت کی بنا پر یہاں بیان نہیں کیا جا سکتا،
شیخ رحمہ اللہ نصیحت کیا کرتے تھے کہ مکتب کی تعلیم ٹھوس دیا جائے، کمیت سے زیادہ کیفیت پر توجہ دیا جائے، وغیرہ وغیرہ،
کرونا لاکڈاؤن سے پہلے کی بات ہے جب والد محترم نے مجلہ نواۓ ابوعبیدہ نکالنے کا فیصلہ کیا تو میں نے شیخ سے اس کا تذکرہ کیا ،چنانچہ شیخ نے کافی مسرت کا اظہار فرمایا اور ایک مضمون بھی اس نومولود مجلۂ کے لئے قلمبند کیا اور تہنئت وتبریک کے ایک خط بھی لکھے ، شیخ رحمہ اللہ ہم طلبہ کو مطالعہ کرنے پر ابھارتے تھے ، لکھنے( مضمون نگاری، تخلیص نگاری وغیرہ )، کی تلقین وتاکید کرتے تھے، آپ اپنے منفرد ونرالے انداز میں کہا کرتے تھے “لکھوں لکھنا لکھنے سے آتا ہے ” لکھنا سیکھو، چھپنا نہیں ” پڑھو پڑھنا پڑھنے سے آتا ہے “
شیخ طلباء کو اکثر کہا کرتے تھے کہ لایبریری جایا کرو ، مطالعہ کرو،اور سکون سے کروں ،اور اپنے ساتھ ایک ڈائری ہمیشہ رکھو ، بہت سارے طلباء سوچتے ہیں مطالعہ تو کرتے ہیں لیکن ذہن میں کچھ باقی نہیں رہتا تو معاملہ ایسا نہیں ہے ،بلکہ دماغ تو امانت دار چور ہے ،
شیخ نے مجھے ایک اہم کتاب ہدیہ کیا ہے ” بچے کیوں بگڑتے ہیں ” کہتے تھے ،اس سے اہم اہم نکات تلاش کرکے تم لوگ خطبہ میں بیان کرنا ، اس کا افادہ عام کرنا ،اسی طرح شیخ محترم نے اپنی تالیف کردہ ایک کتاب بزبان ہندی کے 15 نسخے ہدیہ دیئے ،اور کہا کہ اپنے ارد گرد کے غیر مسلم بھائی کو بعض نسخے دینا تاکہ وہ اسلام کا مطالعہ کرۓ، اور عنف وتشدد ختم ہو اور اللہ نے اگر توفیق دیا تو وہ اپنی مرضی سے دامن اسلام میں بھی پناہ لیں گے (ان شاءاللہ )
لہٰذا میں نے شیخ کی نصیحت پر عمل کیا اور اپنے بعض ہندو اساتذہ کو وہ کتابیں دی ،
شیخ رحمہ اللہ نے ایک دفعہ فرمایا کہ لوگ تعبیر کے فقیر ہوتے ہیں ، ایک دفعہ میں اپنے ہی قریبی رشتہ دار کی وفات پر اس کا گھر گیا ہوا تھا ، تو لوگوں کو دیکھ رہا ہوں اس مصیبت عظمی میں حال چال پوچھ رہے ہیں ،اور کیا خیریت ہے ؟ طبیعت پانی سب ٹھیک ہے نا ؟ بتائیے مصیبت ،رنج وملال ،غم واندوہ کا پہاڑ ہے ، ایسے موقعہ پر اس طرح کے جملے واقعی تکلیف دہ ہوتے ہیں ،
شیخ رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ مزاحا بتایا کہ ، بریلوی ودیوبندی ایک مٹر کے دو دانے ہیں ،
اسی طرح ایک دفعہ بتارہے تھے کہ بعض منکرین حدیث سے جب ہم نے بات کیا تو پتہ چلاکہ سب جاہل ہیں ،ان میں سے کئی ایک تو خیاط ہیں ،کپڑا وغیرہ سلتے ہیں ۔
وغیرہ وغیرہ ،
شیخ کے اوصاف :
هم الرجال اذا ما جئت تمدحهم
سمت على الحرف تيجان وأزهار ،
شیخ رحمہ اللہ ریاء ونمود سے دور رہتے ، صاف وشفاف سینہ ، بغض وحسد سے دور ،مصقل ومصفی دل ، فرط ذکاوت ،أخاذ ذہن ،قوی حافظہ ،مضبوظ ذاکرہ ، اور ایک زندہ دل شگفتہ مزاج ،مرنجا مرنج انسان تھے ،
شیخ کی دوممتاز خوبی ، جسے میں نے شیخ کی زندگی میں خاصکر دیکھا ،
1 ۔ مولانا مرحوم ایک ظریف انسان تھے ، بسا اوقات لطیف سا مذاق بھی کرلیا کرتے تھے ، ایک مرتبہ شیخ ہمارے بزم صحافت کی صدارت کررہے تھے ، طلباء کرام اپنا مقالہ پیش کررہے تھے ،اسی اثناء میں ایک ساتھی نے مطالعہ کی اہمیت پر مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے بعض اسلاف ایسے بھی گزرۓ ہیں جنھوں نے زندگی میں تین دن ہی مطالعہ نہ کرپائے تھے ، ان میں سے ایک دن وہ رات جسمیں آپ ازدواجی زندگی سے منسلک ہوئے تھے ، یعنی شب زفاف ، تو شیخ نے مسکراتے ہوئے صدارتی خطاب میں کہا کہ دیکھو تم لوگ ایسا نہ کرنا ، ورنہ قوی اندیشہ ہے بھاگ جاۓ گی ، پھر شیخ نے مطالعہ کے آداب اصول وضوابط پر مفصل و جامع خطاب کیا اور ہم سب محظوظ ہوتے رہے ،
2 ۔ شیخ رحمہ اللہ ہمت افزائی میں بھی بڑۓ فراخ دل تھے ، کسی نئے لکھنے والے ،پڑھائی میں محنت کرنے والے ،اچھے نمبرات لانے والے ،یاکسی کے اندر کوئی بھی اچھی خوبی ہوتی تو آپ جمکر داد دیتے ،تشجیع وتحفیز کرتے ، اور نیک مشوروں سے نوازتے ، ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازتے ، مزید جد وجہد کدکاوش کرنے کو کہتے اور باکمال دیکھنے کی تمنا کرتے تھے ،
گویا آپ زبان حال سے یہ کہہ رہے ہوتے کہ اڑو اڑتے جاؤں اور آسمان کو پہنچ جاو ،سورج کو چھو لو ،
من كان فوق محل الشمس موضعه
فليس يرفعه شئ ولا يضع ،
ان اوصاف کے علاوہ بہت ساری خوبیاں تھیں فقید رحمہ اللہ میں مثلاً، زبان میں مٹھاس اور حلاوت تھی ، قلم میں روانی اور سنجیدہ بیانی تھی ، نقد ونظر میں ژرف نگاہی ،تنقید میں سلامت روی تھی ،غرض کہ ان کی زندگی کے کسی گوشہ میں بھی ہنگامہ آرائی نہ ،شور وشر ،تصنع وتزخرف ،تکلف اور بناوٹ نہ تھی،وغیرہ وغیرہ ،
اس کے اوصاف حمیدہ اور بھی تو ہیں بہت
ذات میں اس کی چمکتے ہیں وہ جیسے کہکشاں
جنت الفردوس میں اس کے مراتب ہوں بلند
مہرباں اس پر رہے ہر آں خداۓ مہرباں ،
آمین ،
ہجوم اشغال :
شيخ نے اپنی زندگی کا ایک ایک حصہ کام میں لگایا ، درس وتدریس ،دعوت وتبلیغ ، بحث وتحقیق ،تصنیف وتالیف ،خطابت وصحافت ، وغیرہ میں مشغوف ومصروف رہے ، آپ کے استغلال وقت کا اندازہ کیجئے کہ آپ سفر میں بھی پڑھتے لکھتے رہتے تھے، ہندی زبان میں بخاری کی شرح جو آپ نے لکھا تو آپ بتارہے تھے کہ ہم نے سفر میں بھی اس پر کام کیا ہے ، شیخ قلم کے دھنی تھے ، بہت شستہ شگفتہ لکھتے ، چھوٹے چھوٹے جملے لکھتے ،اور ایسا لکھتے کہ بس پڑھتے جائیے اکتاہٹ آپ کی کسی تحریر سے نہیں ہوتی ہے ،آپ کی تحریرحشو وزوائد واطناب سے پاک ہوتی ، جدت وابتکار آپ کی نمایاں خوبیوں میں سے ہے،اس کےثبوت کیلئے ،آپ کا وہ علمی و قلمی سرمایہ ہے جو آپ نے اپنے پیچھے چھوڑۓ ہیں ،
گویا ،
میرۓقلم نے مذاق حیات بدلا ہے
بلندیوں پہ اڑا ہوں ،سما سے کھیلا ہوں ،
قارئین کی طرف سے یہ صدا کہ ،
تشنگی جم گئی پتھر کی طرح ہونٹوں پر
ڈوب کر بھی تیرے دریا سے پیاسا نکلا ،
ہمارے شیخ مختلف پریشانیوں اور ہجوم اشغال کے باوجود سارے بکھیڑوں اور ذمہ داریوں سے فراغت کرکے اپنی شخصیت کو باغ وبہار بنا لیا کرتے تھے ،لکھتے پڑھتے رہتے تھے ، محفل میں ہیں تو بے تکلف ہیں ،باغ وبہار بنے ہیں ،خطابت کے منبر اور اسٹیج پر ہیں تو سامعین پر حکمراں ہیں ، شگفتگی ٹھہراؤ تو شیخ کا خاص اسٹائل تھا ،
اللہ تعالیٰ نے شیخ رحمہ اللہ کو زبان وقلم کا مضبوط ملکہ دیا تھا ،بولتے کیا تھے موتی رولتے تھے ، اور سننے والے سردھنتے تھے ،اردو زبان ہو یا عربی، ایسے جاذب و دل کش انداز اور دل پذیر و پرتاثیر اسلوب میں لکھتے تھے کہ اس کا اثر پڑھنے والے اپنے دل پر محسوس کرتے تھے، اور یہ کہنے پر مجبور ہوتے تھے:
بے سبب دل نہیں کھنچتا تری باتوں کی طرف
کچھ نہ کچھ بات محرر! تری تحریر میں ہے،
معزز قارئین : یہ چند سطوریاد ماضی کے چند حسین لمحات سے مقتبس ہیں،باتیں بہت ہیں لیکن اتنے ہی پر اکتفاء کرتا ہوں ،
ع۔ سفینہ چاہئیے اس بحر بیکراں کیلئے ،
اخیر میں یہ وضاحت ضرور کرنا چاہتا ہوں کہ ،شیخ ایک عظیم شخصیت کے مالک تھے ، بہت عظیم تھے ،لیکن بشر ہی تھے خطاء وچوک بشر سے ہی ہوتا ہے ، کمال تو بس رب تعالیٰ کی خصوصیت ہے ،دعاء ہے کہ مولاۓ کریم شیخ کی خدمات کو قبول فرمائے ، اور ذلات کو معاف فرمائے ، جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے ،آمین یارب العالمین
ازقلم : محمد محب الله بن محمد سيف الدين المحمدی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *