تاریخ اسلامی کا وہ حساس اور پر آشوب دور تھا جب اندلس سے ایک طالب علم بغداد کا رخ کرتا ہے منطق و فلسفہ اور علم کلام کی موشگافیوں نے ایک نیافتنہ “خلق قرآن “کو جنم دیا حتی کہ خلیفہ وقت بھی اس کا شکار ہو گیا امام اہل سنت احمد بن حنبل رحمہ اللہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے ” القرآن كلام الله ليس بمخلوق ” اور مخالفین کو للکارتے رہے کہ خلق قرآن پر کوئی دلیل ہے تو لاؤ ہم مان لیں گے۔ خلیفۂ وقت نے قید وبند کی سزائیں دی پھر جیل سے رہا ہوئے تو گھر میں نظر بند کر دیا تدریس سے روک دیا عوامی تعلقات پر قدغن لگا دی اس اثناء میں بقی بن مخلد اندلس سے حصول علم کے لیے بغداد وارد ہوتے ہیں یہاں پہنچ کر حالات کی سنگینی کا علم ہوا لوگوں سے امام احمد کے گھر کا پتہ پوچھتے ہوئےپہنچے دروازے پہ دستک دی امام نکل کر آئے بقی بن مخلد گویا ہوئے: ابو عبد اللہ! میں ایک مسافر اور پردیسی ہوں پہلی دفعہ اس ملک میں آیا ہوں مقصد علم حدیث کا حصول ہے اور منزل مقصود آپ ہیں امام اہل سنت پوچھتے ہیں: کہاں سے آئے ہو ؟ مغرب اقصی سے.. جواب دیا افریقہ سے ؟ نہیں بلکہ اس بھی زیادہ دور.. اندلس سے امام احمد : تم واقعی بہت دور سے آئے ہو اور مجھے تمہاری مدد ضرور کرنی چاہئے مگر میں آزمائش کے دور سے گزر رہا ہوں جس کا تمہیں شاید علم ہے. بقی بن مخلد: ہاں مجھے پتہ ہے مگر یہاں مجھے کوئی جاننے والا نہیں اگر آپ مجھے اجازت دیں تو ہر روز میں آپ کی خدمت میں ایک بھکاری کے روپ میں آؤں گااور دروازے پر پہنچ کر وہی کہوں گا جو سوالی کہتا ہے اور آپ نکل کر کم از کم ایک حدیث بیان کر دیں گے یہی میرے لیے کافی ہوگا – غالب نے کہا تھا بدل کر فقیروں کا ہم بھیس غالب پہن گدڑی زلف صنم دیکھتے ہیں علم کا شیدائی کبھی ہار نہیں مانتا امام احمد نے کہا : ٹھیک ہے مگر ایک شرط ہے کہ کسی کے سامنے میرا نام ظاہر نہ کرنا حتی کہ محدثین کے سامنے بھی – بقی بن مخلد نے کہا: مجھے یہ شرط منظور ہے. لہذا اپنے ہاتھوں میں چھڑی لیکر سر میں میلا چیتھڑا لپیٹ کردروازےپر آتے اورآواز لگاتے” الاجر رحمك الله ” بھیک دے دو اللہ تم پر رحم کرے وہ برابر یہی کرتے رہے حتی کہ واثق باللہ فوت ہو گیا اور متوکل علی اللہ خلیفہ بنا ( سیر اعلام النبلاء: شمس الدین ذہبی )عزیز طلبہ! تاریخ کے اس عظیم واقعہ سے ہم سب کو سبق لینے کی ضرورت ہے ،ہم سب مختلف دور دراز مقامات سے حصول علم کے لیے اس بستی میں وارد ہوئے ہیں ،گھربار عزیز واقارب سے دوری اور مشاغل دنیوی سے کنارہ کشی کا بس ایک ہی مقصد ہے کہ ليتفقهوا فى الدين تاکہ آج ہم اپنا جائزہ لیں کیا واقعی جس مقصد کے لیے اس مرکز علم میں پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں سنجیدہ ہیں یا لاابالی پن میں زندگی کٹ رہی ہےدین کی گہری بصیرت حاصل کریں